کالم

یورپ اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی دوریاں: سفارتی تعلقات، تجارتی جنگیں اور عالمی سیاست کی نئی بساط  

خلیخ اردو

تحریر محمد عبدالسلام

یوکرائنی صدر زلنسکی کے حالیہ دورۂ امریکہ نے عالمی سیاست کے سفاک اصولوں کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔ جہاں ایک طرف زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شرمندگی اٹھانا پڑی، وہیں برطانیہ میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔

لندن میں جلد ہی بالٹک ریاستوں کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں یوکرائن کی عسکری مدد بڑھانے پر غور کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں نیٹو کے بارہ سے زائد ممالک شریک ہوں گے، جن میں فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ترکی، اٹلی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ اجلاس ظاہر کرتا ہے کہ یورپ روس کے خلاف یوکرائن کی پشت پناہی جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے امریکہ اس معاملے میں پیچھے ہٹ جائے۔

امریکہ اور یورپ کے درمیان سفارتی تناؤ

ماضی میں یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کافی مستحکم سمجھی جاتی تھی۔ دونوں کی خارجہ پالیسیاں، دفاعی معاہدے اور اقتصادی حکمت عملیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ نیٹو اس اتحاد کی سب سے بڑی مثال تھی، لیکن اب یہ اتحاد کمزور پڑتا نظر آ رہا ہے۔

امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ یوکرائن کی مزید مدد کرنے کے بجائے ماضی میں دیے گئے 350 ارب ڈالر کا حساب مانگ رہی ہے۔ اس کے برعکس، یورپی ممالک مکمل طور پر یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے یورپی یونین پر نئے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب اپنے اتحادیوں کو بھی ایک تجارتی حریف کے طور پر دیکھنے لگا ہے۔

یورپ کو اب اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔ اگر یورپی ممالک امریکہ کی اجارہ داری سے نکل کر چین، افریقہ، جنوبی امریکہ اور دیگر ایشیائی مارکیٹس کی طرف دیکھیں، تو یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ امریکہ پر دنیا ختم نہیں ہوتی، اور شاید اب یورپ یہ سمجھ چکا ہے کہ اسے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کا ازسرِنو تعین کرنا ہوگا۔

 

ٹرمپ، زیلنسکی اور امریکہ کے مفادات

زیلنسکی کے ساتھ ٹرمپ کا رویہ محض ایک فرد کے ساتھ بدسلوکی نہیں تھی، بلکہ یہ امریکہ کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کا مظہر تھا۔ سفارتی تعلقات میں کسی بھی ملک کے سربراہ کی تذلیل کرنا غیرمعمولی اقدام ہوتا ہے، اور ٹرمپ کا زیلنسکی کے ساتھ سلوک اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں اخلاقیات سے زیادہ قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ نے کئی ممالک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور جب ان کی ضرورت نہ رہی، تو انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت اس کی تازہ ترین مثال ہے، جہاں امریکہ نے بیس سال تک مداخلت کے بعد اچانک پیٹھ پھیر لی۔ زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

امریکہ کی عالمی حکمت عملی: روس کا خوف اور یورپ کی کمزوری

اگر امریکہ واقعی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، تو اس کا سب سے بڑا ہتھیار یورپ کو روس کے خوف میں مبتلا رکھنا ہے۔ گرین لینڈ، یوکرائن اور دیگر جغرافیائی مقامات پر امریکی مداخلت محض اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہیں۔

امریکہ ہمیشہ ایسے ممالک کے خلاف سخت رویہ اختیار کرتا ہے جو اس کے لیے کمزور اور بے ضرر ہوں، لیکن جب معاملہ کسی طاقتور ملک کے ساتھ ہو، تو واشنگٹن پسپائی اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے خلاف زبانی دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

یورپ، چین اور عالمی تجارتی تبدیلیاں

اگر یورپ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرتا ہے اور چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو فروغ دیتا ہے، تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ چین ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، اور یورپی یونین کے پاس اس کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے کا سنہری موقع موجود ہے۔

یورپ کے پاس مزید کئی مواقع بھی موجود ہیں۔ جنوبی امریکہ، کینیڈا، افریقی ممالک اور دیگر ایشیائی مارکیٹس کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا کر وہ اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔ اگر یورپی ممالک امریکہ کی اجارہ داری سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو عالمی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔

 

نئی عالمی تقسیم: قوم پرستی بمقابلہ عالمگیریت

امریکہ میں سیاسی نظریات کی ایک نئی تقسیم سامنے آ رہی ہے۔ جہاں پہلے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست عام تھی، وہاں اب قوم پرستی اور عالمگیریت کے درمیان جنگ لڑی جا رہی ہے۔

یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ ٹیکنالوجی ہمیشہ سماجی اور سیاسی تبدیلیاں لے کر آتی ہے۔ صنعتی انقلاب نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو جنم دیا تھا، جبکہ آج انفوٹیک اور مصنوعی ذہانت کی ترقی قوم پرست اور عالمگیر سیاسی نظریات کو پروان چڑھا رہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سیاست کا محور اسی تبدیلی کو بنایا ہے۔ انہوں نے امریکی عوام کو باور کروایا کہ عالمگیریت اور نئی ٹیکنالوجی ان کی نوکریوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ یہی وہ نعرہ تھا جس کے تحت ٹرمپ نے امریکی ووٹروں کو اپنی طرف مائل کیا اور "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے” کا وعدہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کو عالمی تنہائی کی طرف لے جا رہی ہیں۔

سفارتی مستقبل: دنیا کس طرف جا رہی ہے؟

یورپ اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ عالمی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف امریکہ اپنی تجارتی اور سفارتی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، وہیں یورپ آہستہ آہستہ چین کی طرف بڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔

برطانیہ میں ہونے والی بالٹک کانفرنس اسی پس منظر میں منعقد ہو رہی ہے، جہاں یوکرائن کے مستقبل پر اہم فیصلے متوقع ہیں۔ یورپ اب سمجھ چکا ہے کہ اسے امریکہ پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یورپ نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کر لیے، تو یہ امریکہ کے لیے ایک بہت بڑی سفارتی شکست ہوگی۔

دنیا تیزی سے ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں پرانے اتحادی ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں اور نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں امریکہ اور یورپ کے درمیان فاصلے مزید بڑھنے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں، اور یہ عالمی سیاست کی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہےا

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button