کالم

طلباء سیاست: عالمی تجربات اور پاکستانی جمہوریت کا آئینہ

خلیج اردو
تحریر محمد عبدالسلام
سوشل میڈیا کے دور میں، طلبہ سیاست اور اس کے فوائد و نقصانات پر جاری مباحثے نے حالیہ واقعات، جیسے اسلامی جمعیت طلبہ اور خیبر میڈیکل کالج کے واقعے، کو مزید تقویت دی ہے۔ اس تحریر میں تفصیل سے طلباء یونین کی اہمیت، اسکی تاریخ اور عالمی سیاست میں طلباء تنظیموں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس موضوع پر کالم لکھنے کی ضرورت اپنے دوست اور کولیگ محمد ابرار کے اٹھائے ہوئے نکتہ کی وجہ سے محسوس ہوئی۔۔

طلباء سیاست صرف ایک وقتی تحریک نہیں، بلکہ ایک ایسا محرک ہے جس نے دنیا بھر میں سیاسی، سماجی اور فکری انقلاب کے دروازے کھولے ہیں۔ چاہے وہ آکسفورڈ، کیمبرج، یا ہارورڈ کی جامع تعلیمی فضا ہو، طلباء یونینز نے نوجوانوں کو قیادت کی تربیت فراہم کی اور عالمی سیاست کے منظرنامے کو نئی جہتیں عطا کیں۔ یورپ اور امریکہ کے معتبر جامعات میں سیاسی شعور اور تبادلہ خیال کی فضا نے نہ صرف ان اداروں کے فارغ التحصیل رہنماؤں کو پروان چڑھایا بلکہ انہیں عالمی سطح پر مؤثر سیاستدان بھی بنایا۔

🔹 عالمی سطح پر طلباء سیاست کا کردار
دنیا میں سٹوڈنٹس تحریکوں کا آغاز تعلیمی اداروں میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کے لیے ہوا۔ ابتدائی دور میں یورپی یونیورسٹیوں میں طلباء نے فلسفیانہ مباحثوں اور نظریاتی تبادلے کے ذریعے خود ارادیت اور آزادی کی جستجو شروع کی۔ 19ویں صدی کے دوران صنعتی انقلاب اور معاشرتی تبدیلیوں نے طالب علموں کو عدم مساوات، طبقاتی فرق اور سیاسی جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔ اس دور میں مختلف یورپی ممالک میں طلباء نے حقوق اور سماجی انصاف کے لیے تحریکیں چلائیں۔

1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں سٹوڈنٹس تحریکوں نے عالمی سطح پر عروج پکڑا۔ فرانس میں مئی 1968 کی تحریک نے تعلیمی اداروں سے لے کر عوامی سطح پر تبدیلی کی لہر دوڑا دی۔ امریکہ میں ویٹنام جنگ کے خلاف احتجاجوں اور سویل رائٹس موومنٹ میں طلباء کا نمایاں کردار نظر آیا، جس نے سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو تقویت بخشی۔ ان تحریکوں نے تعلیمی ماحول کو نہ صرف متحرک کیا بلکہ نوجوانوں میں سیاسی شعور اور عوامی بیداری کو بھی فروغ دیا۔
آج سٹوڈنٹس تحریکیں دنیا بھر میں مختلف انداز میں موجود ہیں اور نوجوانوں کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ تحریکیں ہر دور میں آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں، جو نئے نظریات اور جدت کے ساتھ مستقبل کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔

برطانیہ کا تعلیمی نظام دنیا بھر میں معروف ہے اور یہاں سٹوڈنٹس تحریکیں بھی بڑی فعال ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج اور لندن سکول آف اکنامکس جیسی یونیورسٹیاں طلباء کی سیاسی، سماجی، اور ماحولیاتی مسائل پر فعال تحریکوں کا مرکز رہی ہیں۔ ان اداروں میں طلباء نے مختلف ادوار میں معاشرتی انصاف، جنگ مخالفت، اور تعلیمی اصلاحات کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ تاریخی طور پر، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ان یونیورسٹیوں میں بڑے سیاسی احتجاج ہوئے، جنہوں نے نہ صرف برطانوی سیاست کو متاثر کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی ان تحریکوں نے مثال قائم کی

🔹 پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طلباء کا کردار
پاکستان کی تاریخ میں طلباء نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں، اسلامی اور پاکستانی طلباء نے نہ صرف جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے عوامی بیداری پیدا کی بلکہ قوم کی آزادی کے لیے اپنا جان فاں سرمایہ بھی پیش کیا۔ 1940ء کی قراردادِ پاکستان سے لے کر 1947ء تک، طلباء نے قوم کو یکجا کیا اور آزادی کی راہ ہموار کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ کالج لاہور اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء نے قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ جدوجہد کی۔ چوہدری رحمت علی، جنہوں نے "پاکستان” کا نام تجویز کیا، علی گڑھ کے ایک سرگرم طالب علم تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان بھی طالب علمی کے دور سے ہی تحریکِ پاکستان میں شامل رہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جیسے رہنما بھی طلباء سیاست سے ابھرے اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے انتھک محنت کی۔ ان طلباء نے جلسے، جلوس اور مظاہروں کے ذریعے تحریک کو تقویت بخشی۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی طلباء سیاست نے اپنی اثرانگیزی برقرار رکھی۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں مختلف طلباء یونینز نے تعلیمی اداروں میں عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور تبدیلی کے لیے آواز بلند کی۔ خاص طور پر 1968ء کی تحریک میں، جب ایوب خان کے جابر نظام کے خلاف عوام بغاوت کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے، طلباء نے نہ صرف یونیورسٹیوں کی حدود میں بلکہ سڑکوں اور بازاروں میں بھی اپنی آواز کو بلند کیا۔ یہ تحریک اس وقت کی جمہوری خواہشات کا عکاس تھی کہ جمہوری نظام میں خامیاں دراصل ایک آزمائش ہیں جنہیں اصلاحات کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے، نہ کہ جمہوری اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر حکومت کی جاتی ہے۔

🔹جمہوریت کی ستم ظریفی اور پابندیاں
آج بھی پاکستان ایک ایسے سیاسی نظام کا دعویدار ہے جو جمہوری اصولوں پر مبنی ہے، مگر عملی سطح پر اکثر جمہوری اقدار کو دبا دیا جاتا ہے۔ 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے طلباء یونینز پر عائد پابندی اس کی بہترین مثال ہے۔ اس پابندی نے نہ صرف یونیورسٹیوں کی فضا کو خاموش کر دیا بلکہ مستقبل کے رہنماؤں کی تربیت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ نتیجتاً، ایک متحرک اور باشعور نوجوان نسل کو ملکی سیاست میں بھرپور شرکت کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

🔹 پاکستانی طلباء تنظیمیں: ماضی اور مستقبل کے ستون
پاکستان میں کئی ایسی طلباء تنظیمیں رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف تحریکِ پاکستان بلکہ بعد از آزادی کے دور میں بھی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں

🔸 اسلامی جمیعتِ طلباء:
اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی سب سے منظم اور قدیم طلبہ تنظیموں میں سے ایک ہے، جس کی بنیاد 23 دسمبر 1947ء کو لاہور میں رکھی گئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد طلبہ میں اسلامی شعور بیدار کرنا، تعلیمی اصلاحات کے لیے کام کرنا اور نوجوانوں کو ایک مثبت نظریاتی سمت فراہم کرنا ہے۔ مختلف ادوار میں اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں اسلامی اقدار کے فروغ، نصاب کی بہتری اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں اس تنظیم نے ملک میں جمہوریت، تعلیمی بہتری اور سماجی انصاف کے لیے کئی کامیاب تحریکیں چلائیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین پر پابندی کے باوجود اس تنظیم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور طلبہ کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ مختلف تعلیمی اداروں میں اس کے کارکنان تعلیمی معیار کی بہتری، نصاب میں مثبت تبدیلیوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ اس کے کئی سابق اراکین بعد میں قومی سیاست، تعلیم، صحافت اور دیگر شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کی جامعات میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیشہ متحرک کردار ادا کیا، جہاں اس کے کارکنان طلبہ مسائل پر مؤثر آواز اٹھاتے ہیں۔ اس تنظیم کی نظریاتی بنیاد اسلامی تعلیمات اور نظریہ پاکستان پر رکھی گئی ہے، جس کے تحت یہ نوجوانوں کو ایک نظریاتی اور متحرک کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ آج بھی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی ایک فعال طلبہ تنظیم کے طور پر کام کر رہی ہے، جو تعلیمی، سماجی اور نظریاتی میدان میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔ اسلامی جمیعت طلباء نے پاکستانی سیاست کو بہت سارے بہترین سیاست دان دیئے ہیں۔

🔸انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن :
انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان تحریک انصاف  کی طلبہ تنظیم ہے، جو نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور انہیں ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک، نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل کے حل، تعلیمی اصلاحات اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس تنظیم نے کے وژن کو تعلیمی اداروں تک پہنچانے اور نوجوانوں کو سیاسی میدان میں متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایس ایف کے کئی سابق اراکین بعد میں قومی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں، جن میں مراد سعید اور علی محمد خان جیسے نامور سیاستدان شامل ہیں۔ یہ تنظیم تعلیمی اداروں میں مثبت تبدیلیاں لانے اور طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہے، جس سے ملک کی سیاسی اور سماجی ترقی میں اہم حصہ ڈال رہی ہے۔

🔸پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن:
پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم ہے، جو تعلیمی اداروں میں پارٹی کے نظریات کو فروغ دینے اور طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن نے جمہوریت کی بحالی اور سماجی انصاف کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

🔸 پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن: 
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طلبہ شاخ ہے، جو پختون طلبہ کے حقوق، ثقافتی شناخت اور تعلیمی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہے۔ PkSF نے پختون طلبہ کو منظم کرنے اور ان کے مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے

🔸بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
: بلوچ سٹوڈنٹس فیڈریشن بلوچستانی طلباء کا تنظیم ہے جس نے مختلف علاقائی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان کے طلباء کو درپیش چیلنجز کو ہر فورم پر پراثر انداز میں پیش کیا ہے۔

🔹طلباء سیاست سے ابھرنے والے سیاسی رہنما اور ممتاز نام
پاکستان کی سیاست میں ایسے بے شمار رہنما سامنے آئے ہیں جن کا آغاز طالب علمی کے دنوں سے ہوا۔
🔺 ذوالفقار علی بھٹو (1928-1979) :
پاکستان کے ایک کرشماتی رہنما تھے، جنہوں نے 1971 سے 1973 تک صدر اور 1973 سے 1977 تک وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کی بنیاد رکھی اور 1973 کے آئین کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں، پاکستان نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور غریب و پسماندہ عوام کو سیاسی شعور دیا۔ 1979 میں، ایک متنازع مقدمے کے بعد انہیں پھانسی دی گئی۔

🔺 بے نظیر بھٹو (1953-2007) :
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون سربراہ حکومت تھیں۔ انہوں نے 1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 تک وزارت عظمیٰ کے فرائض انجام دیے۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اپنے والد، ذوالفقار علی بھٹو، کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے دوران دہشت گرد حملے میں شہید ہوئیں۔

🔺حافظ نعیم الرحمٰن:
حافظ نعیم الرحمن طلباء سیاست سے ابھر کر جماعت اسلامی کا امیر بن گئے۔ ماضی میں حافظ صاحب اسلامی جمیعت طلباء کا ناظم رہ چکے تھے۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بعد میں جماعت اسلامی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کے شہری مسائل، بلدیاتی حقوق اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کی قیادت میں، جماعت اسلامی نے کراچی میں پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل پر مؤثر آواز اٹھائی ہے۔

🔺 عمران خان :
عمران خان نے 1972 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں داخلہ لیا اور 1975 میں فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں ڈگری حاصل کی۔ آکسفورڈ میں اپنے قیام کے دوران، عمران خان نے کرکٹ میں نمایاں حصہ لیا اور 1974 میں آکسفورڈ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں کرکٹ کے ساتھ ساتھ طلباء سیاست میں دلچسپی لیتے رہے۔
اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران، عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی.

اسی کے ساتھ، حالیہ دور کے سیاسی رہنماؤں میں مشتاق احمد خان، مراد سعید، علی محمد خان، زلفی بخاری، سعد رفیق، طلال چوہدری، لیاقت بلوچ، اسد قیصر، سراج الحق، اور جہانگیر بدر جیسے نام بھی شامل ہیں۔ یہ رہنما اپنی طالب علمی کے دوران سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے آئے ہیں اور بعد میں پاکستان کی سیاست میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور عوامی خدمات کے ذریعے نمایاں ہوئے ہیں۔ ان کی کامیابیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ طلباء یونینز نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کا حصہ ہوتی ہیں بلکہ قیادت اور سیاسی بصیرت کے فروغ کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔

🔹 دیگر شعبہ جات اور طلباء کی تحریکیں
طلباء سیاست کا اثر صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں رہا۔ ادب، صحافت، سماجی خدمات اور فنون لطیفہ جیسے شعبوں میں بھی طلباء کی تحریکوں نے انقلاب برپا کیا ہے۔ مختلف ثقافتی اور ادبی اجتماعات، سیمینارز اور مباحثوں نے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور انہیں سماجی مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔
علاوہ ازیں، طلباء کی جانب سے چلائی جانے والی تحریکیں، چاہے وہ تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے ہوں یا حکومتی بدعنوانیوں کے خلاف، نہ صرف موجودہ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک رہنمائی کا کام بھی کرتی ہیں۔

🔹 طلباء سیاست ایک روشن مستقبل کی امید
دنیا بھر میں جہاں طلباء سیاست نے قیادت کی تربیت اور جمہوری اقدار کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، وہیں پاکستان میں بھی ان تنظیموں اور تحریکوں کو صحیح سمت دے کر ایک روشن مستقبل کی ضمانت بنائی جا سکتی ہے۔ جب تک یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں آزادانہ، منظم اور تعمیری سیاسی فضا قائم رہے گی، تب تک ملک میں جمہوری اصولوں کی پاسداری اور عوامی شرکت کو فروغ ملے گا۔

ہمیں چاہیے کہ ماضی کی روشن مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، موجودہ نسل کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت، تخلیقی صلاحیت اور جذبۂ خدمت کے ذریعے پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ملک میں تبدیل کر سکیں—ایک ایسا ملک جہاں انصاف، شفافیت اور عوامی شمولیت کو اولین ترجیح حاصل ہو۔
طلبہ سیاست پر پابندی کے بجائے، اس کی بحالی اور بہتری پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اگرچہ طلبہ تنظیموں میں بعض خامیاں موجود ہیں، لیکن ان کے سدباب کے لیے مؤثر قوانین اور ضوابط کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔

طلبہ یونینز جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے، مکالمے کی ثقافت کو فروغ دینے اور آمریت کے خلاف مضبوط دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ ماضی میں، آمریت نے طلبہ تنظیموں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کیں، جو کہ جمہوری معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ طلبہ یونینز کی بحالی سے نوجوان قیادت کو ابھرنے کا موقع ملے گا، جو مستقبل میں انتہا پسندی کے خاتمے اور مثبت سیاسی ماحول کے قیام میں مددگار ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button