کالم

یوکرین کی جوہری دستبرداری: تاریخ، مضمرات اور موجودہ جغرافیائی سیاسی چیلنجز

خلیج اردو
تحریر محمد عبدالسلام
سوویت یونین کی تحلیل اور جوہری وراثت دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد، بہت ساری ریاستیں عالمی منظر نامے پر ظہور پزیر ہوئی ان میں سے ایک ملک یوکرائن تھا، تاہم، اس کے ساتھ ہی اسے ایک غیر متوقع اور گھمبیر چیلنج کا سامنا بھی تھا—جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا غیر روسی ذخیرہ۔ یوکرین کی سرزمین پر تقریباً 1700 جوہری ہتھیار موجود تھے، جن میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBMs) اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں میں نصب جوہری وارہیڈز شامل تھے۔

یوکرین کے پاس اس وقت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا جوہری ذخیرہ تھا، جو صرف امریکہ اور روس سے کم تھا۔ یہ صورتحال نہ صرف خود یوکرین بلکہ عالمی جوہری استحکام کے لیے بھی ایک اہم سوال بن چکی تھی۔ مغربی ممالک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری چاہتے تھے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، یوکرین کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ہونا عالمی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا تھا اور روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتا تھا۔ انکے خیال میں تیسری عالمی جنگ روس یوکرائن کے ایٹمی جنگ کے صورت میں شروع ہوسکتی تھی۔

جوہری ہتھیاروں کے اختیار کا مسئلہ:
اگرچہ یہ ہتھیار یوکرین کی سرزمین پر موجود تھے، لیکن ان کا مکمل کنٹرول یوکرین کے پاس نہیں تھا۔ یوکرین حکومت کیلئے یہ ہتھیار ناقابل استعمال تھے۔

1. لانچ کوڈز اور کمانڈ کنٹرول: یوکرین کے پاس جوہری ہتھیاروں کے فزیکل وارہیڈز تو تھے، مگر انہیں فعال کرنے کے لیے درکار کوڈز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز روس کے پاس تھے۔ اس کا مطلب یوکرین خود سے ان ہتھیاروں کو لانچ نہیں کر سکتا تھا بلکہ اسے لانچ کرنے کیلئے روس کی ضرورت تھی۔

2. معاشی بوجھ: جوہری ہتھیاروں کو رکھنے کیلئے اور جوہری ریاست قائم رہنے کیلئے یوکرائن کو ان ہتھیاروں کی دیکھ بھال، اپ گریڈ اور مینٹیننس کے لیے ایک بڑا بجٹ درکار تھا، جو بحیثیت نوزائیدہ ریاست یوکرائن کیلئے ممکن نہ تھا۔

3. بین الاقوامی دباؤ: امریکہ اور یورپ سابق سوویت ریاستیں کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کے حق میں نہ تھے، کیونکہ اس سے جوہری پھیلاؤ (nuclear proliferation) کا خطرہ بڑھنے کا خطرہ تھا۔

بوڈاپیسٹ میمورنڈم اور یوکرین کی جوہری دستبرداری
1994 میں یوکرین نے بوڈاپیسٹ میمورنڈم پر دستخط کیے، جس کے تحت اس نے اپنے تمام جوہری ہتھیار روس کے حوالے کر دیے۔ بوداپسٹ میمورنڈم کا معاہدہ 5 دسمبر 1994 کو ہنگری کے دارالحکومت بوداپسٹ میں ہوا۔ یہ معاہدہ یورپی سیکیورٹی اور تعاون کی تنظیم (OSCE) کے اجلاس کے دوران طے پایا، جہاں یوکرین، بیلاروس، قازقستان، روس، امریکہ اور برطانیہ کے نمائندوں نے اس پر دستخط کیے۔ یہ مقام اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ اس وقت OSCE کا سربراہی اجلاس بوداپسٹ میں منعقد ہو رہا تھا، جو یورپی سیکیورٹی کے معاملات پر تبادلہ خیال کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم تھا۔ اس معاہدے کے تحت، روس، امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کو درج ذیل سیکیورٹی ضمانتیں دیں:

1. یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے گا۔
2. یوکرین پر کوئی معاشی یا فوجی دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔
3. اگر یوکرین کو کسی بیرونی جارحیت کا سامنا ہو تو عالمی طاقتیں اس کی مدد کریں گی۔

1996 تک، یوکرین نے مکمل طور پر اپنے جوہری ہتھیار روس کے حوالے کر دیے، اور اس طرح وہ دنیا کا واحد ملک بن گیا جس نے اپنی مرضی سے جوہری طاقت سے دستبرداری اختیار کی۔

روس کی جارحیت اور سیکیورٹی ضمانتوں کی ناکامی:
یوکرین نے بوداپیسٹ میمورنڈم پر دستخط کرتے وقت اپنی سلامتی کے تحفظ پر یقین رکھا تھا، مگر 2014 کے بعد کے واقعات نے ان ضمانتوں کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔

1. کریمیا پر روسی قبضہ (2014): روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا، جبکہ بوداپیسٹ میمورنڈم میں اس کی علاقائی سالمیت کی ضمانت دی گئی تھی۔ عالمی طاقتوں جیسا کہ امریکہ اور یورپی یونین نے اس حملے کی مذمت ضرور کی، لیکن کوئی فوجی مداخلت کرنے سے قاصر رہے۔
2. مشرقی یوکرین میں جنگ:
روس نے ڈونباس اور لوہانسک میں علیحدگی پسند گروہوں کو مدد فراہم کی، جس کے نتیجے میں یوکرین میں ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ روس یوکرائن کو مسلسل ذدکوب کرتا رہا لیکن مغربی ممالک بلخصوص امریکہ روس کو دھمکیوں کے سوا کچھ نہ کرسکا۔

3. روس-یوکرین جنگ (2022- تا ۔۔۔حال جاری) : 2022 میں روس نے مکمل طور پر یوکرین پر حملہ کر دیا، اور دنیا نے دیکھا کہ بوداپیسٹ میمورنڈم میں دی گئی ضمانتیں حقیقت میں محض الفاظ تھے۔ لیکن اس دوران روس یوکرین پر جارحیت کرنے پر مجبور تھا کیونکہ جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں کے اتحاد کی حمایت کرنے پر امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے روس سے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ نیٹو اتحاد کو مشرقی یورپ تک نہیں بڑھائے گا۔ تاہم، بعد میں یکے بعد دیگرے مشرقی یورپی ممالک نیٹو میں شامل ہوتے گئے یوکرین نے بھی نیٹو میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی، اور یہی بات روس کو ناگوار گزری، جس کے نتیجے میں اس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔

اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو کیا ہوتا؟
یہ ایک انتہائی بڑا اور اہم سوال ہے کہ اگر 1990 کی دہائی میں یوکرین نے اپنے ایٹمی ہتھیار روس کے حوالے نہ کیے ہوتے تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا؟

1. جوہری ڈیٹرنس (Nuclear Deterrence): اگر یوکرین جوہری ہتھیار رکھتا تو شاید روس اس پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا، کیونکہ کسی بھی تصادم میں جوہری جنگ چھڑنے کا خطرہ ہوتا اور یہ یوکرائن کے ساتھ ساتھ روس کیلئے تباہ کن ثابت ہوتا۔

2. عالمی طاقتوں کا ردعمل:
اگر یوکرین جوہری ریاست ہوتا تو شاید مغربی ممالک بھی اس کی حمایت میں زیادہ مستعد ہوتے۔ کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے تصادم کی صورت میں پورا یورپ جوہری جنگ کے ضد میں آنے کا خطرہ ہوتا۔

3. داخلی اور اندرونی چیلنجز:
بالفرض یوکرین نے جوہری ہتھیار رکھے ہوتے تو اسے معاشی دباؤ، سفارتی تنہائی اور ممکنہ عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔

یوکرین کے لیے مستقبل کے چیلنجز

1. نیٹو اور یورپ میں شمولیت:
یوکرین اب اپنی بقا کے لیے نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کے لیے کوشاں ہے، تاکہ اسے عالمی سطح پر تحفظ حاصل ہو۔

2. مغربی اسلحہ اور دفاعی شراکت داری:
یوکرین کو اب امریکہ، یورپی ممالک اور نیٹو سے فوجی امداد حاصل ہو رہی ہے، لیکن یہ جوہری ہتھیار جتنا مؤثر دفاع نہیں۔ امریکی امداد بھی بند ہوچکی ہے اور زلنسکی کے حالیہ دورہ امریکی میں امریکہ صدر کے ہاتھوں بے توقیری اس بات کا ثبوت ہے کہ یوکرین کا دارومدار اب صرف یورپی ممالک کے فوجی اور دفاعی ساز و سامان پر ہوگا۔

3. روسی توسیع پسندی کا مقابلہ:
یوکرین کو اب نہ صرف اپنی علاقائی سالمیت بحال کرنے بلکہ مستقبل میں روسی جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے بھی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ حالیہ جنگ میں یوکرین کا پوزیشن کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور امریکی امداد کے خاتمے کے ساتھ یہ جنگ بہت جلد فیصلہ کن مرحلے میں شامل ہو جائیگا۔

کیا یوکرین کی جوہری تنصیبات سے دستبرداری ایک غلطی تھی؟۔
یوکرین کی جوہری دستبرداری کو آج کئی ماہرین ایک اسٹریٹجک غلطی سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی سیکیورٹی کے عوض محض زبانی وعدے قبول کر لیے، جو بعد میں غیر مؤثر ثابت ہوئے۔ یوکرین کے لیے بدقسمتی یہ تھی کہ اس نے اپنی جوہری طاقت کو ترک کرنے کے بدلے میں وہ ضمانتیں حاصل کیں جو صرف کاغذی وعدے تھیں، اور ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ اگر یوکرین کے پاس آج جوہری ہتھیار ہوتے، تو شاید روس اس پر حملہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا۔ اس کے علاوہ، امریکہ، بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کا یوکرین کے ساتھ رویہ بہت زیادہ معاون نہیں رہا۔ امریکہ ہی وہی ملک تھا جس نے بوڈاپسٹ میمورنڈم پر دستخط کرنے اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو روس کے حوالے کرنے پر آمادہ کیا۔

ٹرمپ نے یوکرین کے لیے فوجی امداد بند کی اور یوکرینی صدر زیلنسکی کو امریکی صدارتی محل اوول آفس میں بھلا کر تمام سفارتی آداب کو روند کر میڈیا کے سامنے اسکی تذلیل کی۔ جس سے یوکرین کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی اور یو یوکرین کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ اور ثابت نہ ہوئے۔ اگر یوکرین نے جوہری ہتھیار رکھے ہوتے تو عالمی سطح پر اس کا اثر و رسوخ زیادہ مضبوط ہوتا، اور روس کے لیے اسے چیلنج کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

یہ معاملہ دیگر غیر جوہری ریاستوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ کیا صرف تحریری ضمانتوں پر انحصار کیا جا سکتا ہے، یا جوہری ہتھیار ہی حتمی سیکیورٹی کا ذریعہ ہیں؟ یہ سوال آج ایران، شمالی کوریا، اور دیگر ممکنہ جوہری طاقتوں کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔

یوکرین کی کہانی ہمیں عالمی سیاست میں "حقیقت پسندی” اور "سیکیورٹی کے عملی اصولوں” کو سمجھنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button