خلیج اردو
اسلام آباد:عمران خان کی ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری غیرقانونی ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دے دیا۔۔۔عدالت نے قرار دیا کہ بائیو میٹرک کرانے کا عمل عدالتی کارروائی کا حصہ ہے،عدالتی کارروائی کے دوران کسی شخص کو گرفتار نہین کیا جا سکتا۔عدالت عظمی نے عمران خان کو پولیس لائنز میں رکھنے اور ہائیکورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کردی
سپریم کورٹ میں فواد چوہدری کی جانب سے عمران خان کی عدالت عالیہ سے گرفتاری کے خلاف درج درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔عمران خان کے وکیل نے عدالت کو عمران خان کی گرفتاری سے متعلق صورتحال سے آگاہ کیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایک شخص کو عدالت سے گرفتار کیا جاتا ہے تو پھر کون عدالت پر اعتماد کرے گا انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، ۔ مختصر سماعت کے بعد عدالت نے عمران خان کو فوری پیش کرنے کی ہدایت کی جس پر سخت سیکیورٹی حصار میں عمران خان کو سب جیل سے سپریم کورٹ لایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن نیب نے خود گرفتاری کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟جسٹس اظہر نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے عمران خان کو عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا عمران خان کو کتنے نوٹسز موصول ہوئے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس دیا گیا تھا، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ بظاہر نیب وارنٹس قانون کے مطابق نہیں تھے، جسٹس کیا وارنٹس جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟عمران خان لاہور میں تھے، نیب نے پنجاب حکومت کو وارنٹ تعمیل کا کیوں نہیں کہا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی الزامات ہیں، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔نیب کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا خطرہ تھا۔دوران سماعت بینچ نے عمران خان کی عدالت کے احاطے سے گرفتاری کے وقت توڑپھوڑ اور گرفتاری کے طریقہ کارکو عدالت پر حملہ قرار دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرے دل دکھی ہوا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان کو جہاں سے گرفتار کیا وہیں سے ساری کارروائی دوبارہ شروع کی جائے
عمران خان کے وکلاء کی جانب سے بنی گالا یا زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پولیس لائنز میں عمران خان کو گیسٹ ہاوس میں رکھا جائے۔عمران خان کو 10 سے 12 بندوں کے ساتھ ملاقات کی اجازت ہوگی۔ انہیں اسلام آباد پولیس سیکیورٹی فراہم کرے گی۔عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی وکلاء کے جشن میں عمران خان کو سخت سیکیورٹی میں لے جایا گیا۔