خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے دو ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق 12 جولائی کے فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ جاری کردیا۔اختلافی نوٹ میں واضح کردیا گیا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئینی دائرہ اختیار سے باہر جانا پڑے گا۔
سپریم کورٹ کے دو ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی کو ملنے والا ریلیف ماورائے آئین قرار دے دیا۔جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا
29 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ ججز نے اختلافی نوٹ میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا کہ 15 دن کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہونے سے نظرثانی درخواست غیر مؤثر ہوسکتی ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرکے اور آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جاکر دیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف نہ تو اس کیس میں فریق تھی نہ ہی الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے سامنے فریق بنی، تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی حقدار ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق آزاد امیدواروں کو طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا گیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
نوٹ کے مطابق 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر صرف ہوا، دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ جس پر سلمان اکرم راجہ سمیت کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا۔۔۔۔۔