
خلیج اردو
کوئٹہ: جعفر ایکسپریس حملے میں دہشت گردوں سے رہائی پانے والے مسافروں نے دل دہلا دینے والے واقعات بیان کیے۔ حملے کے دوران دہشت گردوں نے مسافروں کو علیحدہ علیحدہ گروپوں میں تقسیم کر دیا۔ لودھراں کے رہائشی محبوب حسین نے بتایا کہ دہشت گردوں نے سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون مسافروں کو ایک طرف رکھا جبکہ فوج اور ایف سی کے اہلکاروں کو الگ گروپ میں کر دیا۔
محبوب حسین کے مطابق، سرائیکی گروپ میں تقریباً 30 سے 40 افراد شامل تھے۔ صبح اذان کے وقت ایف سی کی فائرنگ کے دوران وہ کچھ دیگر مسافروں کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم بھاگ رہے تھے تو دہشت گرد پیچھے سے فائرنگ کرتے رہے لیکن ہم جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
لاہور کے رہائشی اللہ دتہ نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے ان کے پھوپھی زاد بھائی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے دہشت گردوں سے بار بار التجا کی کہ وہ ان کی معصوم بچیوں کا خیال کریں، مگر دہشت گردوں نے ان کی کوئی بات نہ سنی اور انہیں شہید کر دیا۔
نور محمد نامی مسافر نے بتایا کہ حملے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد فائرنگ رک گئی تو مسلح دہشت گردوں نے زور سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو کر کہا کہ باہر نکلو ورنہ گولی مار دیں گے۔ کچھ دیر بعد ان کی اہلیہ کو بھی یرغمال بنا لیا گیا اور دونوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا کہ سیدھے چلتے جاؤ اور پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔
مسافروں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے ٹرین روکنے کے بعد انہیں نیچے اتار کر شناختی کارڈ چیک کیے۔ کچھ مسافروں کو جانے دیا جبکہ فوج اور ایف سی کے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ میرے ساتھ بیوی اور بچے تھے، جس پر دہشت گردوں نے مجھے جانے کی اجازت دی۔ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی اہلکاروں نے بہادری سے لڑتے ہوئے انہیں بحفاظت بازیاب کرایا۔
بحفاظت واپسی پر مسافروں نے اپنے پیاروں کو گلے لگا لیا، جس کے دوران جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ تاہم، کوئٹہ سے سبی جانے والے کئی مسافروں کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، اور ان کے لواحقین نم آنکھوں کے ساتھ ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔