خلیج اردو
اسلام آباد:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں، بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، سب کے سامنے ہے،اسلام آباد بند پڑا ہے، کیا اچھا لگے گا کہ میں کمشنر کو بلا کر شوکاز نوٹس جاری کروں؟
پی ٹی آئی کے اسلام آباد جلسے کا این او سی معطل کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا جو خدشہ تھا وہی ہوا ہے، ہمیں جلسے کی اجازت دی گئی اور پھر آخری دن این او سی معطل کر دیا گیا۔
انتظامیہ نے جلسے کی اجازت کا بیان حلفی عدالت میں دیا تھا، ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کا کیوں بتاتے ہیں؟ یہ لوگ ایک پارٹی کے سپورٹر ہیں لیکن اس سے پہلے انسان اور پاکستان کے شہری ہیں، لوگ دور دراز علاقوں سے چل چکے ہوتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے جلسہ معطل ہو گیا، آپ پہلے بتا دیا کریں کہ سکیورٹی خدشات ہیں اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی بےحس لوگ تو نہیں کہ انہوں نے پھر بھی اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالنا ہے، میں نے پریس میں دیکھا کہ صبح صبح اڈیالہ جیل جا کر ملاقات کی گئی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جلسہ ملتوی کرنے پر پی ٹی آئی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اگلی اجازت بھی دیدی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پورا اسلام آباد بند ہے کنٹینرز ہی کنٹینرز ہیں، وجہ کیا ہے؟ صرف ایک مارگلہ روڈ کھلا ہے اور وہاں بھی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں، محرم ہو گیا، ختم نبوت والے آ گئے، اب آگے کیا ہونا ہے وہ بھی بتا دیں ، کیا اچھا لگے گا کہ میں کمشنر کو بلا کر شوکاز نوٹس جاری کروں۔
چیف جسٹس نے یہ درخواست زیرالتواء رکھتے ہوئے کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی۔