خلیج اردو
مقبوضہ بیت المقدس :اسرائیلی وزیر نے دعویٰ کیاہے کہ فلسطینی عوام جیسی کوئی شئے وجود نہیں رکھتی ہے۔
مصر میں ہونے والی میٹنگ کے ایک دن بعد یہ بیان آیا ہے جس کے لیے ثالثی مصر اردن اور امریکہ کےعہدہ داروں نے کی تھی۔
اسرائیل اور فلسطینی وفود نے رمضان سے قبل خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ واقعہ اسرائیل کی نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت پر بائیڈن انتظامیہ کے بظاہر محدود اثر و رسوخ کا عکاس نظر آتاہے اور جس نے رمضان سے قبل اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے بارے میں سوالات اٹھائےہیں۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی متنازعہ تقریرکیا تھی
اس وقت جب مذاکرات کار مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جارہا تھا، اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے پیرس میں اتوار کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’ فلسطینی عوام کا تصور مصنوعی ہے۔ فلسطینی قوم نام کی کوئی شئے وجود نہیں رکھتی۔ فلسطین کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ کوئی فلسطینی زبان نہیں ہے‘‘۔
انہوں نے ایک ایسے ڈائس کے سامنے یہ تقریر کی جو بظاہر اسرائیل کے ایک ایسے نقشے سے ڈھکا تھاجس میں اسرائیل میں مقبوضہ مغربی کنارہ، غزہ اور اردن شامل تھے۔
اردن کی وزارت خارجہ نے کہا ہےکہ سموٹریچ کا اس نقشے کے ساتھ سامنے آنا دونوں ممالک کے درمیان "غیر ذمہ داری پر مبنی اشتعال انگیز اقدام اور بین الاقوامی اصولوں اور امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے پیر کی شام ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ ممالک کے 1994 کے امن معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ریاست اسرائیل کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہےجو ہاشمی بادشاہت کی علاقائی سالمیت کو تسلیم کرتا ہے‘‘۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ نے کہا کہ سموٹریچ کے ریمارکس ’’اس انتہا پسند، نسل پرست صہیونی نظریے کا حتمی ثبوت ہیں جو موجودہ اسرائیلی حکومت کی جماعتوں پرغالب ہے‘‘۔
اسرائیلی وزیر خزانہ کا گزشتہ ماہ مغربی کنارے کے قصبے حوارا کو مٹانے کا مطالبہ
سموٹریچ کی جو ایک انتہائی دائیں بازو کےفلسطینی ریاست کے مخالف آباد کار رہنما ہیں، فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ بیانات کی تاریخ ہے۔ پچھلے مہینے، انہوں نے مغربی کنارے کے فلسطینی قصبے حوارا کو ’’مٹانے‘‘ کا مطالبہ کیا تھاجب بنیاد پرست یہودی آباد کاروں نےاس فائرنگ کے حملے کے جواب میں قصبے پر دھاوا بول دیا تھاجس میں دو اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آباد کاروں کی طرف سے ’’مہلک تشدد اور آتش زنی‘‘ نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں شمالی مغربی کنارے کے قصبے حوارا کو نشانہ بنایا۔
مقامی حکام کے مطابق درجنوں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے 30 گھروں کو نذر آتش کر کے نقصان پہنچایا گیا۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزیلیل سموٹرچ نے، جو ایک انتہائی دائیں بازو کے آباد کاری کے حمامی ہیں، بعد میں کہا کہ حوارا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ضرورت ہے۔ ان کے اس بیان کی متحدہ عرب امارات، اقوام متحدہ، امریکہ اور فرانس سمیت بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
سموٹریچ نے بعد میں بین الاقوامی ہنگامہ آرائی کے بعد معافی مانگ لی۔
گزشتہ ہفتےمتحدہ عرب امارات نے اسرائیلی حملے میں تباہ ہونے والے قصبے کی بحالی کے لیے تین ملین ڈالر کا اعلان کیا ہے۔متحدہ عرب امارات کے صدر کے سینئر مشیر انور قرقاش نے تین ملین ڈالر کے وعدے کو فلسطینی عوام کے لیے اپنےملک کی ’’مسلسل اور مستحکم حمایت‘‘ کےمستند اظہارسے تعبیر کیا۔
نیا تشدد، سموٹریچ کےبیانات کے ساتھ، ان سخت چیلنجوں کی عکاسی کرتا ہے جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ایک سال کے مہلک تشدد کے بعد نسبتاّ پر سکون تھے۔
مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی فائرنگ سے 200 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور اس دوران فلسطینی حملوں میں 40 سے زائد اسرائیلی یا غیر ملکی ہلاک ہو ئے ہیں۔
نیتن یاہو کے ساتھ اپنی فون کال کے دوران، صدر بائیڈن نے احتیاط سے کام لینے کی اپیل کی۔ وائٹ ہاؤس نے کہا، ’’اسرائیل کے دوست کی حیثیت سے اس امید پر کہ سمجھوتے کا کوئی فارمولا مل سکتا ہے۔صدر نے اپنے اس یقین پر زور دیا کہ جمہوری اقدار ہمیشہ سے امریکہ اسرائیل تعلقات کی علامت رہی ہیں، اور رہیں گی‘‘۔