خلیج اردو
یوکرین :بین الاقوامی تفتیش کاروں کا کہنا ہے تحقیقات کے دوران اس بات کے واضح اشارے ملے ہیں کہ 2014 میں یوکرین میں مار گرائے جانے والے ملائیشین مسافر طیارے ایم ایچ 17 کو تباہ کرنے کے لیے باغیوں کو میزائل فراہم کرنے کی منظوری روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے دی تھی۔
برطانویخبر رسا ں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کی حدود میں باغیوں کے میزائل حملے میں تباہ ہونے والے طیارے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈچ پراسیکیوٹرزکے مطابق اس بات کے واضح اشارے ملے ہیں کہ ولادمیر پیوٹن نے یوکرین میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کو میزائل فراہم کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں کہ پیوٹن نے مسافر طیارے کو گرانے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔
گزشتہ برس نومبر میں ہالینڈ کی عدالت نے 2014 میں مار گرائے جانے والے طیارے کے الزام میں 2 روسی اور ایک یوکرینی باشندے پر ان کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی تھی۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم سے کوالا لمپور کے لیے جانے والے طیارے کو یوکرین کے ڈونباس ریجن میں علیحدگی پسندوں نے میزائل سے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا تھا، طیارے میں 296 مسافر اور عملہ سوار تھا جس میں سے 196 افراد کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔
ماسکونے طیارے کو گرانے کے حوالے سے تمام تمام الزامات سے انکار کیا ہے – ان فیصلوں کو "بدتمیزی” اور سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کے طور پر مسترد کردیاہے۔
بین الاقوامی ٹیم، جس پر میزائل لانچ کرنے کے ذمہ داروں کی تلاش کا الزام ہے، بدھ کے روز کہا کہ اس نے تمام لیڈز ختم کر دی ہیں اور مزید مجرمانہ کارروائی جاری نہیں رکھ سکتے۔
بوئنگ 777 ہالینڈ کے دارالحکومت سے کوالالمپور جا رہا تھا جب جولائی 2014 میں یوکرین کے ڈونباس علاقے میں روس نواز باغیوں اور یوکرینی افواج کے درمیان تنازع کے دوران اسے روسی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نے نشانہ بنایا۔
298 مسافروں اور عملے میں سے 196 ڈچ تھے جبکہ دیگر مسافروں میں سے بہت سے ملائیشیا،آسٹریلیا، برطانیہ، بیلجیم اور دیگر ممالک سے آئے تھے۔
ہالینڈ کی جانب سے قائم کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے مطابق عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ یوکرین کی ڈونیستک پیپلز ریپبلک کو مکمل طور پر ماسکور کنٹرول کرتا ہے۔
ڈچ تفتیش کاروں کے مطابق مضبوط شواہد موجود ہیں کہ علیحدگی پسندوں کی جانب سے روسی صدر سے میزائل کی فراہمی کی درخواست کی گئی تھی جسے صدر ولادمیر پیوٹن نے منظور کیا تھا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے ہم یہ تمام باتیں مضبوط شواہد کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں، اور اس حوالے سے ہم ابھی کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔