پاکستانی خبریں

آئین کی دھجیاں نہ اڑائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے خلاف اپیلو ں کے کیس میں سلمان اکرم راجا سے مکالمہ

خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے سے متعلق کیس پر فل کورٹ کی سماعت کے دوران ججز کے اہم ریمارکس ۔کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ۔۔۔آئین کی دھجیاں نہ اڑائیں،آپ، 86 لوگوں کی بات نہ کریں، آپ ایک درخواستگزار کے وکیل ہیں، 86 کے نہیں،، کل ایم کیو ایم آپ کے ساتھ تھی، آج نہیں، کل سنی اتحاد نے بھی ایسا کیا تو ہمارے پاس آئیں گے؟

 

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا صاف شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی ، سنی اتحاد کونسل ایکٹو سیاسی جماعت تھی، وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تیسرا دن نہیں دیں گے، جسٹس نعیم اختر نے کہا سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین بھی بطور آزادامیدوار ہی سیاسی جماعت جوائن کررہا ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا آپ کی مرضی ہے حامد خان کو بلائیں نہ بلائیں، دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کو آئین کی پروگریسو تشریح کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کردیں، ہم ایسا کیوں کریں۔ عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے۔

 

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جنھوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے۔ سنی اتحاد کونسل تو پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی بطور پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی؟ ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق کے منافی ہے۔

 

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا فرض کریں یہ اصول طے کیا جاتا ہے کہ امیدوار پی ٹی آئی کے تھے تو پھر آپ کدھر کھڑے ہونگے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پریس کانفرنس کرنے والوں کو معافی، باقی نشانہ، یہ حقائق سب کے علم میں ہیں کیا عدالت آنکھیں بند کرلے؟

 

الیکشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائےگئے 2018 میں بھی یہی ہوا، کیاایک سیاسی جماعت کو یہ چیلنجز بھگتنے کیلئے چھوڑدیں؟ یہ سیاسی جماعت کا نہیں اس کے ووٹرز کا معاملہ ہے، پورا معاملہ اس وقت کنفیوژن کا شکار ہوا جب پی ٹی آئی سے نشان لے لیا گیا

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button