خلیج اردو
کراچی: پاکستان کے مایہ ناز صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے مختلف الزامات اور اشاریوں کنایوں میں نجی ٹی وی اے آر وائے کے سی سی او سے پوچھے جانے والے سوالات پر سلمان اقبال نے خاموشی توڑ دی۔ انہوں نے وضاحتی بیان کے ساتھ ساتھ تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بڑا مطالبہ کردیا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر ارشد شریف کا قتل ایک مرتبہ پھر اس وقت مووع بحث بنا جب سلمان اقبال نے ٹویٹر پر اپنے اکاؤنٹ سے ایک بیان منسلک کرکے اپنے خلاف حکومت اور اداروں کی جانب سے بنائے گئے چار شیٹ پر خاموشی توڑ دی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جب اپریل 2022 میں بنی تو ان کے خلاف ایک مہم شروع کی گئی۔ خود پر اور صحافیوں پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے حملوں کے باعث وہ نہ صرف عدم تحفظ کے شکار ہوئے بلکہ چھ ماہ سے ملک واپس نہیں آ سکے۔
مسٹر اقبال کاوفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کے تانے بانے ان سے جوڑنے اور دیگر الزامات کو اسی مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ میرا اپنے بھائی کے خلاف بہیمانہ اقدام میں کسی طرح کا کردار نہیں۔
My statement. #ArshadSharifShaheed @UNHumanRights #pfuj pic.twitter.com/7D2o58ng7t
— Salman Iqbal ARY (@Salman_ARY) October 28, 2022
سلمان اقبال نے حالیہ دنوں میں سول حکومت اور فوجی حکام کی جانب سے مختلف سوالات اور ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں سلمان اقبال کے شامل تفتیشن کیے جانے کے مطالبے پر کہا کہ وہ جانتے تھے کہ ارشد شریف کی زندگی کو حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ دوستوں اور ساتھیوں کے طور پر ہم مرحوم اور ان کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہمارے دفاتر نے اُنھیں سفری تیاری میں مدد فراہم کی۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ دوست کی مدد کرنا کب سے جرم ہو گیا ہے؟
سلمان اقبال نے مختلف حلقوں کی جانب سے ان کے پاکستان واپس آ کر تحقیقات میں معاونت سے متعلق مطالبے پر کہا کہ اُنھیں موجودہ حکومت کی جانب سے تحقیقات کی غیر جانبداری پر یقین تو نہیں مگر وہ اپنے سامنے رکھے گئے سوالات کے جواب دیں گے۔
مسٹر اقبال نے قوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق سے اس قتل پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے بتایا کہ وہ ایسی کسی بھی تحقیقات کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال کی ہدایت پر ان کے ساتھی عماد یوسف نے ارشد شریف کے ملک سے باہر جانے کے انتظامات کیے۔ ان کے مطابق جب شہباز گل نے اے آر وائے پر فوج کے خلاف متنازع بیان دیا اور اس حوالے سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ سلمان اقبال نے ارشد شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کی ہدایات دیں ہیں۔
جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سلمان اقبال کی ہدایات کی روشنی میں 10 اگست کو ارشد شریف پشاور سے دبئِی روانہ ہوئے جہاں کے پی حکومت نے مرحوم کو مکمل پروٹوکول دیا۔انکے مطابق ’ارشد کینیا اس وقت روانہ ہوئے جب ان کا دبئی کا ویزا ختم ہوا تھا۔
فوجی ترجمان نے یہ جاننا ضروری سمجھا کہ متحدہ عرب امارات میں ارشد شریف کے رہنے کا بندوبست کس نے کیا؟ اور وہ تھا جس نے ان کو کہا کہ ان کی جان کینیا میں محفوظ ہے اور پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے؟ انہوں نے سوال پوچھا کہ کس نے ان کو کہا کہ صرف کینیا ویزہ فری ملک ہے؟ ان کی کینیا میں میزبانی کون کر رہا تھا اور ان کا ارشد سے کیا تعلق تھا؟ کیا وہ ان کو پہلے سے جانتے تھے؟‘ ان تمام معاملات میں سلمان اقبال کا نام بار بار آ رہا ہے اس لیے اُنھیں واپس لا کر شاملِ تفتیش کرنا چاہیے۔
فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی وفاقی وزیر رانا ثناءاللہ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے تانے بانے عمران خان اور سلمان اقبال سے ملتے ہیں لیکن تحقیقات میں حقائق سامنے آئیں گے۔
یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے اے آر وائے کے ساتھ منسلک رہنے والے باخبر صحافی ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا میں پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا تھا۔بظاہر ان کا قتل پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہوا ہے مگر کینیا کے مقامی صحافیوں اور پاکستانی حکام کو کینیا پولیس کے بیان سے اتفاق نہیں۔
صحافی ارشد شریف کے قتل پر صحافی براداری سمیت ہرمکتب فکر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جمعرات کو ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان میں دفنایا گیا۔
مرحوم کی نماز جنازہ میں پاکستان کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ میں رقعت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے جب کئی افراد نے انقلابی نعرے بھی لگائے۔