
خلیج اردو
ابوظبی: متحدہ عرب امارات میں مقیم شامی تارکین وطن کے دلوں میں وطن واپسی کی امید ایک بار پھر جاگ اٹھی ہے، جب متحدہ عرب امارات کی جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی نے شام کیلئے پروازوں کی بحالی کا اعلان کیا۔ بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ امارات سے شام جانے والے شہریوں کے لیے آسمان ایک بار پھر کھلنے لگا ہے۔
25 سالہ دبئی کی رہائشی لیلیٰ امیر کا کہنا تھا کہ "یہ اب صرف ایک پرواز کا فاصلہ ہے۔” وہ 2019 میں متحدہ عرب امارات آئیں اور تب سے اپنی دادی سے آخری ملاقات یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کی دادی 2022 میں انتقال کر گئیں لیکن لیلیٰ سیاسی صورتحال اور سفری پابندیوں کی وجہ سے واپس نہ جا سکیں۔
پروازوں کی معطلی کا آغاز جنوری 2025 میں ہوا تھا، جب شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 7 جنوری کو شارجہ جانے والی 145 شامی شہریوں کو لے کر جانے والی شام ایئرلائنز کی پرواز دمشق سے پہلی بین الاقوامی کمرشل پرواز تھی۔
ابوظبی میں مقیم 45 سالہ سمیر الخطیب نے کہا کہ "سوريا دوبارہ اُبھر رہا ہے، اور ہم ضرور واپس جائیں گے۔” انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو ان کی جڑیں دکھانا چاہتے ہیں، جنہوں نے شام صرف تصویروں میں دیکھا ہے۔
اسی طرح 30 سالہ عاصم مصطفیٰ، جو سات سال سے حلب واپس جانے کے خواب دیکھ رہے تھے، کام کے دوران یہ خبر سن کر جذباتی ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ترکی میں اپنے بہن بھائیوں سے ملاقات کرتے تھے کیونکہ شام جانا ممکن نہیں تھا، لیکن اب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اپنے آبائی شہر میں دوبارہ جمع ہونے کے قابل ہوں گے۔
اس پیشرفت کے پیچھے صدر شیخ محمد بن زاید اور شامی عبوری رہنما احمد الشراء کی ملاقات ہے، جس میں امارات نے شامی عوام کے ساتھ اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
ادھر سعودی عرب کی جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ایک وفد جلد دمشق جائے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پروازوں کی بحالی کی تیاری کی جا سکے۔
شامی برادری میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر کوئی اپنے وطن کی بحالی اور جلد واپسی کے لیے پُرامید ہے۔ شامی شہریوں کا کہنا ہے کہ اُن کی قوم کے نوجوان اپنے وطن کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔