متحدہ عرب امارات

یو اے ای: اپریل 2024 کے تباہ کن سیلاب کے بعد مکینوں نے زندگی، رہائش اور کام پر نئے سرے سے غور کیا

خلیج اردو
دبئی:
اپریل 2024 میں متحدہ عرب امارات نے تاریخ کی سب سے شدید بارش دیکھی، جو 1949 سے اب تک کے تمام ریکارڈز کو پیچھے چھوڑ گئی۔ اس غیرمعمولی بارش نے ملک بھر میں زندگی کو مفلوج کر دیا۔ سڑکیں زیر آب آگئیں، کئی افراد گھنٹوں تک سڑکوں پر پھنسے رہے، بعض کو اپنی گاڑیاں چھوڑ کر پیدل محفوظ مقامات تک پہنچنا پڑا، اور بہت سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔

دبئی کے رہائشی، 26 سالہ جواد الدین، اس دن تقریباً 13 گھنٹے تک پھنسے رہے۔ اپنی کار کو چھوڑ کر ایک دوست کے گھر پناہ لی۔ جواد نے واقعے کے بعد مستقل طور پر گھر سے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھر میں دفتر کا علیحدہ کمرہ بنا لیا اور کہا کہ اگر جسمانی موجودگی ضروری نہ ہو تو گھر سے کام زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ سرکاری ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت دی گئی، لیکن نجی شعبے میں اس حوالے سے ابہام برقرار رہا۔

البرشاء کی رہائشی میا زیدوان نے سیلابی رات کو ایک "خوفناک خواب” قرار دیا۔ اس واقعے نے انہیں اپنی رہائش کے انتخاب پر نظرثانی پر مجبور کیا۔ انہوں نے ایسی عمارت کا انتخاب کیا جس کی دیکھ بھال بہتر ہو اور انتظامیہ ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دے۔ انہوں نے یاد کیا کہ بجلی بند ہونے کے بعد وہ تین منزلہ سیڑھیاں چڑھ کر پانی حاصل کرنے کے لیے بلڈنگ کے سوئمنگ پول تک گئیں۔

کاروں کو شدید نقصان پہنچا، اور سیلاب کے کئی ہفتے بعد تک ورکشاپس ان گاڑیوں سے بھرے رہے جنہیں انشورنس کلیمز یا ذاتی خرچ پر ٹھیک کروایا جا رہا تھا۔ جن ڈرائیورز کے پاس جامع انشورنس تھی، انہیں قدرتی آفات کے تحت نقصان کی تلافی ہوئی، جبکہ صرف تھرڈ پارٹی انشورنس رکھنے والے افراد کو اپنی جیب سے ادائیگیاں کرنا پڑیں۔ اردنی شہری ہند نے کہا، "سب نے یہی کہا کہ پانی نے انجن خراب کر دیا”، جس کے بعد ان کی معمولات زندگی مہینوں متاثر رہی۔

خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں امارات میں بارش کی شدت میں 10 سے 20 فیصد اضافہ اور اوسط درجہ حرارت میں 1.7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ متوقع ہے۔ اسی پس منظر میں حکام نے متعدد اقدامات کا اعلان کیا، جن میں سب سے اہم شیخ محمد بن راشد المکتوم کا 30 ارب درہم کا ’تصریف‘ نامی نیا نالہ منصوبہ ہے، جو 2033 تک مکمل ہوگا۔

سیلاب سے مقامی کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ "بک اینڈز” نامی سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان نے 14,000 سے زائد کتابیں کھو دیں۔ شریک بانی سمیعہ انور نے کہا کہ وہ اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتیں جب ان کی دکان پانی سے بھر گئی۔ تاہم سوشل میڈیا پر ایک اپیل نے لوگوں کو متحرک کیا اور کئی نے کتابیں عطیہ کر کے کاروبار کو سنبھلنے کا موقع دیا۔

اسی طرح موسیقی کی تربیت گاہ ‘لا موسیقیٰ’ کے بانیوں کو قیمتی آلات کا نقصان اٹھانا پڑا، جن میں اکھیل پلائی کا ذاتی اور جذباتی وابستگی والا پیانو بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود، انہوں نے اپنے گاہکوں کی حمایت سے ہمت نہ ہاری۔ دونوں کاروباروں نے مستقبل کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے: بک اینڈز نے المونیم کی الماریاں اور واٹر پروف کنٹینرز استعمال کیے جبکہ لا موسیقیٰ نے ٹائل فرش اور واٹر ریزسٹنٹ جپسم بورڈز کا انتخاب کیا۔

شہریوں اور کاروباری اداروں کی بحالی کی کہانیاں ثابت کرتی ہیں کہ دبئی ایک ایسا شہر ہے جو مشکلات سے گھبراتا نہیں، بلکہ ان کا سامنا کرکے مزید مضبوط ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button