
خلیج اردو
دبئی: خلیج میں اچانک بھڑک اٹھنے والی حالیہ کشیدگی نے نہ صرف خطے کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ قطر اور بحرین سے تعلق رکھنے والے متحدہ عرب امارات میں مقیم افراد کو شدید ذہنی دباؤ اور جذباتی بے چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فوجی اڈے "العدید” پر میزائل حملے اور اس کے اگلے ہی دن جنگ بندی کے اعلان نے جذباتی طور پر لوگوں کو الجھا دیا۔
دبئی میں مقیم قطری مارکیٹنگ مینیجر نورا حسن نے بتایا، "یہ سب کچھ میری بہن کی فون کال سے شروع ہوا جس نے کہا کہ فوراً خبریں لگاؤ۔ جیسے ہی میں نے دیکھا، آسمان پر میزائل اور سائرن کی آوازیں سنائی دیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب قطر میں ہو رہا ہے۔ وہ رات کبھی ختم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔”
نورا کے مطابق جب پروازیں معطل ہوئیں اور فضائی حدود بند ہونے کی خبریں آئیں، تو دل میں خوف مزید گہرا ہو گیا۔ "اگرچہ میں دبئی میں تھی، لیکن دل دوحہ کے لیے دھڑک رہا تھا۔”
22 جون کو امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر ’مڈنائٹ ہیمر‘ کے نام سے حملہ کیا، جس کے جواب میں ایران نے اگلی شام ’گلاڈ ٹائیڈنگز آف وکٹری‘ کے تحت العدید ائیر بیس پر میزائل فائر کیے۔ قطر کے وزارت خارجہ نے اس حملے کو ملکی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
شارجہ کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم بحرینی طالب علم عمر ڈی نے بتایا کہ "منامہ میں میرے گھر والے پوری رات جاگتے رہے۔ سائرن کی آواز آئی تو امی بار بار کھڑکیاں چیک کرتی رہیں۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ مشق ہے یا اصل حملہ۔”
اگرچہ بحرین براہ راست نشانہ نہیں بنا، لیکن حملے کے خطرے نے ہر ایک کو متاثر کیا۔ عمر نے کہا، "میں نے خود بھی ساری رات جیسے سانس روکے گزاری۔”
ابوظہبی میں مقیم قطری بزنس کنسلٹنٹ فیصل جے نے کہا، "جب سنا کہ قطر میں امریکی بیس کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو میرا پہلا خیال تھا کہ کہیں یہ آگ پورے خطے میں نہ پھیل جائے۔ میں ہمیشہ پورے خلیج میں بغیر کسی خوف کے کام کرتا رہا ہوں، لیکن ایک لمحے میں وہ اعتماد ختم ہو گیا۔”
فیصل نے بتایا کہ وہ جلد ہی قطر واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ "میں خوف کی وجہ سے نہیں جا رہا، بلکہ اپنے لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ جب تک دوحہ کی گلیوں میں چل کر خود نہ دیکھوں، دل مطمئن نہیں ہو گا۔”
دریں اثنا، قطر کے وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر ماجد بن محمد الانصاری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ "ایندھن، پانی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مکمل فراہمی جاری ہے۔ ملک کی نقل و حرکت معمول پر ہے، اور زندگی 100 فیصد بحال ہو چکی ہے۔”
تاہم جذباتی اثرات باقی ہیں۔ نورا نے اس تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا: "ہم جنگ کے عالم میں سوئے اور امن کے ساتھ جاگے، لیکن اعتماد فوری طور پر بحال نہیں ہوتا۔ ہم ابھی بھی وہ سکون تلاش کر رہے ہیں۔