
خلیج اردو
دبئی: متحدہ عرب امارات کے علاقے فجیرہ کے پہاڑی علاقے میں ایک 36 سالہ اماراتی نوجوان راشد عبداللہ الخدیِم العنطالی گزشتہ دو دہائیوں سے لوہے کو ہاتھوں سے تراش کر چاقو، خنجر اور تلواروں میں ڈھال رہا ہے، جس میں نہ صرف اس کی محنت بلکہ اماراتی ثقافت کی جھلک بھی نمایاں ہے۔
راشد کا یہ سفر اپنے والد کے فارم سے شروع ہوا، جہاں وہ پرانے اوزاروں سے دھاتیں نکال کر انہیں چاقو میں تبدیل کرتا تھا۔ یہ شوق اب ایک باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے جو راشد اور اس کے بھائی کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔
راشد کا کہنا ہے کہ "یہ ہنر صبر، نقش کاری اور تخلیقی صلاحیت سکھاتا ہے۔” چاقو کے دستوں کے لیے وہ بکری یا بھیڑ کی کھال کو صاف کرکے نمک لگا کر خشک کرتا ہے اور روایتی طریقوں سے سوراخ کرتا ہے، جیسا کہ پرانے وقتوں میں کیا جاتا تھا۔
راشد کا ورکشاپ مٹی کے بھٹّی اور روایتی دھونکنی سے لیس ہے، اگرچہ کچھ کاموں کے لیے اب بجلی کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن راشد کا اصرار ہے کہ "ہاتھ سے کیے گئے اوزاروں کی جگہ کوئی چیز نہیں لے سکتی۔”
راشد نے قصرا لحصن اور الوثبہ جیسے مشہور ثقافتی میلوں میں شرکت کی ہے، جہاں اس کا کام سراہا گیا۔ اماراتی ایئرلائنز کی پروازوں میں بھی "Faces of Fujairah” ویڈیو سیریز میں راشد کا تعارف شامل کیا گیا ہے۔
اس کی محنت کو شیخ حمدان بن زاید اور ولی عہد فجیرہ شیخ محمد بن حمد الشرقی جیسے معزز شخصیات نے بھی سراہا ہے۔ راشد کا کہنا ہے کہ بزرگ افراد ان کے کام کی پائیداری کو خاص طور پر پسند کرتے ہیں۔
راشد کا خواب ہے کہ وہ نوجوان نسل کو اس ہنر کی جانب راغب کرے اور اس فن پر ایک کتاب بھی لکھ رہا ہے تاکہ یہ روایتی صنعت آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔
وہ ہر تیار کردہ چاقو یا تلوار پر اپنی مہر ثبت کرتا ہے تاکہ اس کی شناخت اور ذاتی وابستگی کا اظہار ہو۔ اس کا کہنا ہے، "یہ پیشہ، اگرچہ ایک شوق کے طور پر شروع ہوا، لیکن اب میرے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے، اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔”
راشد العنطالی آج کے دور میں روایتی ہنر اور ثقافت کے زندہ محافظ کے طور پر نوجوانوں کے لیے ایک روشن مثال بن چکا ہے۔