
خلیج اردو
ابوظبی: متحدہ عرب امارات کی عدالت نے ایک بینک کی جانب سے ایک صارف کے خلاف دائر کردہ 13 لاکھ درہم سے زائد کا مالی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے بینکاری قوانین کی پابندی اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کو مضبوط قانونی حیثیت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ابوظبی کورٹ آف کیسیشن کی دوسری کمرشل سرکٹ نے 14 اپریل کو سنایا۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ جب تک کسی قرض کی واپسی کے لیے مناسب اور قانونی طور پر قابلِ نفاذ ضمانتیں فراہم نہ کی جائیں، بینک قرض کی وصولی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ اصول وفاقی فرمانی قانون نمبر 23 برائے 2022 کے آرٹیکل 121 (بِس) میں بیان کیا گیا ہے، جو کہ 2018 کے مرکزی بینک اور مالیاتی اداروں سے متعلقہ قانون میں ترمیم ہے۔
یہ کیس ایک ’مرابحہ‘ معاہدے سے متعلق تھا، جس کے تحت ایک بینک نے ایک صارف سے 13 لاکھ درہم سے زائد کی بقایاجات کا مطالبہ کیا۔ ابتدائی عدالت نے بینک کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا، تاہم بعد میں اپیل کورٹ نے بینک کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
بعد ازاں، صارف کے وکلاء — آواتف شوقی ایڈووکیٹس اینڈ لیگل کنسلٹنسی — کی جانب سے دائر کردہ کیسیشن اپیل پر کورٹ آف کیسیشن نے اپیل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ابتدائی عدالتی فیصلے کو بحال کر دیا اور صارف کے حق میں فیصلہ سنایا۔
مدعا علیہ کے نمائندہ قانونی مشیر، ڈاکٹر حسن الہیاس نے اس فیصلے کو صارفین کے حقوق کی فتح قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ قرض کی سہولت دینے سے قبل قانونی طور پر موزوں ضمانتوں کی فراہمی ضروری ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ تنخواہ کی منتقلی، جسے عام طور پر بینک غیر رسمی ضمانت کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس قانونی ضرورت کو پورا نہیں کرتی جب تک کہ اسے کسی دیگر قانونی دستاویز سے تقویت نہ دی جائے۔ ان کے مطابق، “آرٹیکل 121 (بِس) کے تحت صرف تنخواہ کی منتقلی کو ضامن قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
ڈاکٹر الہیاس نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف ایک صارف کی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کے تمام صارفین کی جیت ہے، جو بلا ضمانت مالی دعووں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “قانون واضح ہے — جب تک قانونی ضمانت موجود نہ ہو، دعویٰ قابلِ سماعت نہیں۔”
یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کے بینکنگ سیکٹر کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے کہ قرض کی وصولی کے لیے ایسے ضمانتی دستاویزات ضروری ہیں جو قرض دہندہ کی مالی حیثیت اور قرض کی مقدار کے مطابق ہوں۔