پاکستانی خبریںعالمی خبریں

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد جمع : تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اس کا قانونی اور آئینی طریقہ کار کیا ہے؟

خلیج اردو
اسلام آباد : پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے عملی میدان میں آکر وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کیلئے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ تحریک پر ایک سو سے زائد ارکان اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔

آج مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف کا وفد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ پہنچا۔ جہاں اپوزیشن رہنماوں نے تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن بھی جمع کرائی۔

ریکوزیشن کے ساتھ تحریک جمع کرانے کا نوٹس بھی دیا گیا۔ تینوں کاغذات ایڈیشنل سیکرٹری محمد مشتاق نے وصول کئے۔ اپوزیشن رہنماوں نے میڈٰیا سے گفتگو میں دعوی کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر جتنے دستخط درکار تھے سب موجود ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کا آئینی طریقہ کار کیا ہے؟
اسلام آباد قومی اسمبلی کے ایک تہائی اراکین آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرنے کے بعد اسپیکر آفس میں جمع کروائیں گے جس پر سپیکر 3 یا 7 روز کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس تحریک پر ایوان میں کارروائی شروع کروائیں گے۔

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا طریقہ کار سیکرٹری قومی اسمبلی کی جانب سے ایوان میں بتایا جائے گا جس کے تحریک میں ووٹنگ کروائی جائے گی اور یہ ووٹنگ اوپن ہوگی۔

طریقہ کار کے مطابق قومی اسمبلی ہال میں دو لابیز بنائی جائیں گی ایک لابی تحریک کے حق میں جبکہ دوسری لابی تحریک کی مخالفت میں۔ اسپیکر کے اعلان کے بعد ارکان تحریک کے حق اور مخالفت والی لابیز کے باہر پڑے رجسٹر پر اپنے دستخط کریں گے۔ قومی اسمبلی اسٹفا ارکان کی تعداد سے متعلق سپیکر کو آگاہ کریں گے۔

عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اگر کوئی رکن اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کےخلاف ووٹ دے گا تو اس جماعت کا پارلیمانی لیڈر پہلے اس رکن کو شوکاز نوٹس جاری کرے گا اور پھر اسپیکر کو فلورکراسنگ کی شق کے تحت کارروائی کےلیے درخواست دے اور سپیکر 30 روز کے اندر اس رکن کےخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا جس پر الیکشن کمیشن 90 روز میں فیصلہ کرےگا۔

 

قومی اسمبلی میں اس وقت کل اراکین کی تعداد 341 ہے۔ حکومت اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کی تعداد 178 ہے۔ اپوزیشن کے اراکین کی کل تعداد 163 ہے۔

حکومتی بینچوں پر بیٹھے تحریک انصاف کے اراکین کی کل تعداد 155 اور ایم کیو ایم اراکین کی تعداد 7 مسلم لیگ ق کے 5 جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 5 ہیں۔ جی ڈی اے تین عوامی مسلم لیگ ایک جمہوری وطن پارٹی ایک اور آزاد اراکین کی تعداد ایک ہےجبکہ اپوزیشن جماعتوں میں ن لیگ کے اراکین کی تعداد 84. پیپلز پارٹی کے 56 ایم ایم اے کے 15 جبکہ بی این پی کے چار اے این پی کے ایک اور آزاد اراکین کی تعداد تین ہے۔

سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کومیاب بنانے میں مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم کے اراکین کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ کے ارکان کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ادھر پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ نے مائنس عثمان بزدار فارمولا کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ پراعتماد ہیں اور اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیں گے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button