پاکستانی خبریں

خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی جانب سے بھیک مانگنے پر سینیٹ باڈی برہم،کمیٹی ارکان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، عراق اور دیگر ممالک میں پاکستانی فقیر درد سر بن گئےہیں

خلیج اردو

اسلام آباد: سیکریٹری سمندر پار پاکستانی نے انکشاف کیا کہ یہاں سے جہاز بھر بھر کر بھکاری بیرون ملک جا رہے ہیں ، جتنے فقیر گرفتار ہوتے ہیں، ان میں سے نوے فیصد پاکستانی ہوتے پیں، ہمارے اتنے افراد اس لیے ڈی پورٹ ہو رہے ہیں کہ وہ بھکاری بن جاتے ہیں، حرم کے اندر سے جتنے جیب کترے پکڑے جاتے ہیں ان  میں زیادہ تر پاکستانی ہیں۔ سینیٹر رانا محمود الحسن نے کہا کہ بھارت نے تو چاند پر قدم رکھ دیا ہے، ہم روزانہ کوئی چاند چڑھا دیتے ہیں۔

 

سینیٹر منظور احمد کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز کا اجلاس۔ سیکرٹری اووسیز پاکستانی نے انکشاف کرتے ہوئے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ عرب ممالک میں 99 فیصد گرفتار فقیروں کا تعلق پاکستان سے نکلتا ہے، فقیر زیادہ تر عمرے کے ویزے یا وزٹ ویزے پر جاتے ہیں، یہ زیارات پر بھیک مانگنے جاتے ہیں۔  مسئلے کے حل کیلئے دفتر خارجہ کے ساتھ ملکر میکنزم بنا رہے ہیں۔

 

سینیٹر رانا محمود الحسن نے کہا کہ جاپان نے 3 لاکھ 40 ہزار  ہنر مند افراد مانگے مگر پاکستان سے صرف 200 افراد جاپان گئے، ہماری پاس 50 ہزار انجینئر بے روزگار ہیں، سعودی عرب کو اب سادہ لیبر نہیں، سکلڈ لیبر چاہیے، ہم پچاس ہزار افراد کو تو تربیت دے کر بھیجیں، ہم تو اب بنگالی اور نیپانی افراد سے بھی کم تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔

 

سیکریٹری سمندر پار پاکستانی نے بتایا کہ ہماری لوگ سکلڈ نہیں اور پاکستانی پر بیرون ملک بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ پہلے ہم ان سکلڈ لیبر بیرون ملک بھیجتے تھے، اب  ہم اپنے اسکلڈ لیبر جن میں انجینر  ، نرسز، آئی ٹی ، پیرامیڈیکل ، فارماسوٹیکل  شامل ہیں انھیں باہر بھیج رہے ہیں، کوریا جاپان کویت میں ہم اپنا سکلڈ ورکر بھیجتے ہیں ، ادھر سے زیادہ ترسیلات آتی ہیں۔

 

سینیٹر بہرامند نے انکشاف کیا کہ کسی پراجیکٹ پر چھ، چھ ماہ کام کرنے والے ملازمین سے جو پیسے لئے انہیں کاڈ نہیں دیا جاتا،  وہاں کام کرنے والے ورکرز انتہائی غریب لوگ ہیں، انہیں انہی کے پیسے واپس نہ کرنا ظلم ہے، ای او بی آئی اپنی ذمہ داریاں ہی پوری نہیں کر رہا۔

 

چیئرپرسن ای او بی آئی نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ اکثر ورکرز کے پاس آئی ڈی کارڈز تک نہیں ہوتے، اس وقت سات ہزار ملازمین رجسٹرڈ ہیں، ڈیٹا مائنز اونر فراہم کرتا ہے۔ سیکریٹری ای او بی آئی نے کہا کہ جو افغانی وہاں کام کر رہے انہیں ہم کیسے پینشن دے سکتے ہیں، کنٹریکٹر اپنا حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کمیٹی نے  ای او بی آئی کے پاس جمع ہونے والی رقم کہاں جارہی ہے رہورٹ طلب کر لی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button