پاکستانی خبریں

سپریم کورٹ کا ریکارڈ فراہم کیا جائے،شہری کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوط کر لیا

خلیج اردو

اسلام آباد:انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی اور قانونی اعتبار سے انتہائی پیچیدہ  اور حساس معاملہ ہے ، جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دئے کہ کیا سپریم کورٹ انفارمیشن کمیشن کا حکم ماننے کی پابند ہے؟  سپریم کورٹ اگر کمیشن کے ماتحت ہے تو عدلیہ آزاد کیسے ہو گئی؟ آئین کے مطابق عدلیہ کسی کے ماتحت نہیں ہے۔

 

دوران سماعت عدالتی استفسار پر درخواست گزار مختار احمد نے بتایا کہ گریڈ 1-22 تک عدالتی عملے کی تفصیلات مانگی تھیں جو فراہم نہیں کی گئیں، چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آپ نے ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟ صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھ رہا ہوں معلوم ہے آپ قانونی طور پر بتانے کے پابند نہیں، استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا معلومات تک رسائی کے قانون میں ذکر ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون میں صرف ٹربیونلز اور دیگر عدالتوں کا ذکر ہے۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کیخلاف رٹ جاری نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ کسی ہائی کورٹ سے رجوع بھی نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ رولز کے تحت رجسٹرار کو اختیار نہیں کہ ازخود ہائی کورٹ سے رجوع کر سکے، انتظامی سطح پر اگر فل کورٹ رجسٹرار کو اختیارات دے تو رجسٹرار ایسا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔

 

چیف جسٹس  نے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تمام معلومات ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں، اگر کوئی ملازم یا افسر اپنی معلومات شیئر نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ میں دو خواجہ سرا بھی ملازم ہیں وہ خود کو ظاہر نہ کرنا چاہیں تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ  کسی افسر کی تفصیلات ذاتی نوعیت کی معلومات ہیں وہ نہیں فراہم کی جا سکتیں۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل انیس کے تحت معلومات تک رسائی کے قانون کو سپریم کورٹ کیلئے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا،  سپریم کورٹ عوام عامہ کے تحت رولز میں ترمیم کرکے معلومات کے حصول کیلئے ایک افسر مقرر کرے،جو انفارمیشن سیکشن کے زریعے درخواست آنے پر معلومات فراہم کر دے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کی معلومات فراہم کرنے سے عدلیہ کی خود مختاری پر حرف تو نہیں آئے گا؟اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا۔

 

عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے  درخواست گزار اور اٹارنی جنرل سے تحریری دلائل مانگ لئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہفتے میں تحریری دلائل جمع کرائیں پھر فیصلہ کرینگے۔

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button