
تحریر: ثناءاللہ خان احسن
میں نے چار لاکھ کا آئ فون لیا ہے۔ ارے بھئ واہ ماشااللہ۔ مٹھائ تو بنتی ہے۔
میں نے ستر لاکھ کی نئ نکور گاڑی لی ہے۔ بہت خوب اللہ مبارک کرے۔ پارٹی تو بنتی ہے۔ میرا نیا بنگلہ مکمل ہوگیا ہے، بیس کروڑ لگ گئے یار۔ ارے واہ۔ بہت مبارک ہو، تو پھر کب دعوت کھلا رہے ہو؟
میں نے قربانی کے لئے دو لاکھ کی گائے کی ہے۔ بہت عمدہ دیسی بچھیا ہے۔
یار افسوس ہے۔ کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ اس رقم سے ضرورتمندوں کی مدد کردیتے۔ واٹر کولر دلوادیتے۔
یہ وہ عام رویہ ہے جو آجکل پنپ رہا ہے۔ یعنی ہر ذاتی دنیاوی ضرورت کی تکمیل پر مبارکباد اور مٹھائیاں۔ جبکہ سنت ابراہیمی اور اللہ نام کی قربانی پر آپ کو ضرورتمند یاد آجاتے ہیں۔ جبکہ ان کی عقل دراصل کسی گدھے کے دماغ سے بھی چھوٹی ہوتی ہے۔
بقرعید میں تھوڑا ہی عرصہ رہ گیا ہے اور حسب معمول فیسبک پر بقرعید پر قربانی سے الرجک افراد کے وہی گھسے پٹے کمنٹس شروع ہوگئے ہیں کہ جانور کاٹ کو گوشت تقسیم کرنے سے تو بہتر ہے کہ کسی غریب بچے کی تعلیم کا بندوبست کردیا جائے۔ کوئ کہتا ہے کسی غریب کو کاروبار کروادیا جائے تو کوئ پیاسوں کے لئے واٹر کولر رکھنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ مجھے کبھی کبھی ان دانشوروں کی عقل و شعور پر شدید حیرت ہوتی ہے کہ ان کی سوچ کس قدر سطحی ہے اور یہ معاملے کی گہرائ تک سوچے بغیر بس شُرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔
یہ لوگ شاید گردش زر کے فوائد اور معاشیات میں اس طرح کی معاشی سرگرمیوں کے فوائد سے واقف نہیں کہ جہاں زر کی گردش اوپر کے طبقے سے لے کر نچلے ترین طبقے تک پہنچتی ہے اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔
زر جب خرچ ہوتا ہے تو پھر ایک انسان تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہر سمت میں اس کا فلو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دولت کے انبار اکٹھے کرکے اور ان کو سینت سینت کر رکھنے کے بجائے دولت خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سود بھی اسی لئے حرام ہے کہ دولت کو ایک مخصوص اور محدود منافع کے لالچ میں منجمد کرنے کے بجائے تجارت اور کاروبار میں لگایا جائے تاکہ زر کی گردش کے فوائد معاشرے کے نچلے ترین طبقے تک پہنچ سکیں۔
مثال کے طور پر اگر میں کہوں کہ ایک سیٹھ اپنے لئے دس کروڑ کے بنگلے کی تعمیر کرواتا ہے۔ اب بظاہر عام غریب افراد کو یہ بات بری لگے گی کہ کتنی فضول خرچی ہے۔ لوگ بھوکے مررہے ہیں اور یہ دس کروڑ کا بنگلہ تعمیر کروارہا ہے۔ مگر جناب زرا اس بنگلے کی نیو سے لے کر آخری رنگ و روغن تک کے تمام مراحل اسٹیپ بائ اسٹیپ سوچئے اور ایمانداری سے بتائیے کہ یہ دس کروڑ کس کس طرح کن کن لوگوں کی جیبوں میں جارہا ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عید قربان پر بس لوگ اربوں روپے کے جانور خرید کر ان کو قربان کرکے گوشت تقسیم کردیتے ہیں اور بس معاملہ یہیں پر ختم ہوجاتا ہے؟ اگر میں پانچ لاکھ روپے کی ایک گائے خرید کر اسے قربان کرتا ہوں تو کیا یہ میرے پیسے کا ضیاں ہے اور اس سے معاشرے چند افراد کو کچھ وقت گوشت کا سالن کھانے کے علاوہ کسی فرد کو کوئ فائدہ نہیں پہنچے گا۔
مثال کے طور پر میں بقرعید پر 5 لاکھ روپے کی ایک گائے قربانی کے لئے لیتا ہوں۔ بینک میں میرا پانچ لاکھ منجمد تھا۔ اس کو نکالتے ہی زر کی گردش شروع ہوگئ۔ رش اور پارکنگ جیسے مسائل سے بچنے کے لئے میں اپنی گاڑی کے بجائے ٹیکسی سے مویشی منڈی جاتا ہوں۔ یہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور کی 2000کی دہاڑی لگی۔ اب میں منڈی میں گھوم پھر کر جانور تلاش کرتا ہوں۔ دو تین گھنٹے کی تلاش بھاؤ تاؤ کے بعد تکان اور پیاس لگتی ہے تو عارضی طور پر قائم ڈھابے میں بیٹھ کر پانی کی بوتل خریدتا ہوں چائے پیتا ہوں۔ اس طرح نہ صرف ڈھابے والے کی کمائ ہوئ بلکہ اس ڈھابے پر کام کرنے والے چار چھ ملازمین کے روزگار کا بندوبست بھی ہوا۔
اب مجھے ایک جانور پسند آجاتا ہے اور میں اس کو خرید لیتا ہوں
جو بندہ اندرون سندھ کے کسی گاؤں سے یہ جانور لایا ہے وہ تھوڑی بہت کھیتی باڑی اور مویشی پالتا ہے۔ اس کے بیوی بچے ہیں۔ بیٹے بیٹیاں اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ اپنے جانوروں کو ایک ٹرک میں معاوضہ دے کر کراچی لایا ہے۔ٹرک ڈرائیور اور اس کے کلینر اور مزدوروں کو روزگار ملا۔
جب تک منڈی میں جانوروں کے ساتھ رہے گا جگہ کا کرایہ دے گا۔ پانی کا ٹینکر خریدے گا۔ جگہ کے کرائے کے پیسے شہر کی انتظامیہ بلدیہ کو جائیں گے جو اس کمائ سے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے گی۔ اب اگر کرپشن اور بد انتظامی اقربا پروری کی وجہ سے یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں لگتا تو یہ نظام کا قصور۔
جب تک وہ منڈی میں رہتا ہے اپنے جانوروں کے لئے چارہ پانی خریدتا ہے۔ جانوروں کی سجاوٹ کا سامان رسی زنجیریں وغیرہ فروخت کرنے والے منڈی میں سینکڑوں ویٹرنری ڈاکٹر وں کو روزگار ملا۔ بیوپاریوں کی خدمت، مساج مالش، حجامت والوں کو روزگار ملا۔
بیوپاری اور ساتھ ھیلپرز کو روزگار ملا۔ منڈی میں قائم ڈھابوں پر کھانا پانی چائے پیتے ہیں عارضی ڈھابوں اور ان کے ملازمین کو روزگار ملا۔
جانور کو گھر لانے کے لئے منی ٹرک ھائر کرتا ہوں۔ ٹرک کے مالک کلینر اور ساتھ مزدوری کرنے والے دو چار افراد کو روزگار ملا۔
جانور گھر لایا۔ اس کے لئے ٹینٹ اور چارے وغیرہ کا انتظام کیا جگہ جگہ چارے کے اسٹال لگانے والوں اور ان کے ملازمین کو روزگار ملا۔ ٹینٹ والے کو روزگار ملا۔ چارہ جن کھیتوں سے آرہا ہے اس کے کسان کو روزگار ملا۔ جن ٹرکوں میں یہ چارہ آتا ہے اس کے مالک اور اسٹاف مزدور کو روزگار ملا۔
بقرعید پر قربانی کے لئے میں دو چار کھجور کے پتوں کی بنی چٹائ خریدتا ہوں۔ سب جانتے ہیں یہ چٹائیاں کونسے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگ بناتے ہیں اور ان کی پورے سال کی گزر بسر بس انہی دو ماہ کے کام پر ہوتی ہے ورنہ کھجور کے پتوں کی یہ چٹائیاں ٹوکریاں اتنے بڑے پیمانے پر کون خریدتا ہے۔ یوں سندھ اور بلوچستان کے کسی دور افتادہ مقام پر کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں اور چٹائیاں بنانے والے کو سال بھر کے گزارے کا روزگار ملا۔
پھر میں گوشت بنانے کی مڈھی بغدے اور چھریاں ٹوکریاں وغیرہ خریدتا ہوں۔ چھری بغدے والے بھی سارا سال مکھیاں مارتے ہیں۔ یہ دوماہ ان کو بھی روزگار ملتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے غریب پشتون یہ دو ماہ چھریاں تیز کرنے کا کام کرتے ہیں اور روزگار کماتے ہیں۔
اس کے علاوہ قصائ کو روزگار ملا قصائ کے ھیلپرز کو روزگار ملا۔ یہ گوشت جب تقسیم ہوگا تو اس کے پکانے کے لئے مصالحہ جات کی منڈی چڑھے گی وہاں کے دکانداروں مزدوروں چکی والوں کو کام ملا۔ بار بی کیو کے چولہے بنانے والوں سیخیں بنانے والوں کو روزگار ملا۔ کوئلے کی منڈی چڑھی۔ اگر کوئ یہ قربانی کا گوشت اکٹھا کرکے بیچ بھی دیتا ہے تو کوئ مسئلہ نہیں۔ جو خریدیں گے وہ بہرحال پکا کر کھائیں گے اور پکانے سے متعلق جو بھی سازوسامان مصالحے گھی وغیرہ چاہئے ان کے دکانداروں کو روزگار ملا۔
فریج فریزر کی ڈیمانڈ بڑھی۔ ان کی سیل کے ساتھ ساتھ سوزوکی پک اپ اور مال لوڈ ان لوڈ کرنے والوں کو روزگار ملا۔ جانوروں کی آلائش سے پولٹری فیڈ اور کھاد بنانے والوں کو خام مال مہیا ہوا۔ جانوروں کی کھال سے سارا سال سوئ ہوئ بلین ڈالر چمڑے کی انڈسٹری میں گویا جان پڑ جاتی ہے اور ان کے تمام کاروبار کا انحصار ہی اس عید قربان پر ہوتا ہے۔ چمڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کو روزگار ملا۔ پھر ان لیدر مصنوعات سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک کو ملتا ہے۔ جانوروں کی ھڈیوں اور سینگوں سے بے شمار مصنوعات بٹن، چھری چاقو کے دستے، ڈیکوریشن کا سامان، ھینڈی کرافٹس بنتی ہیں اس کے کاریگروں کو روزگار ملا۔
لاکھوں کی تعداد میں غیرممالک میں مقیم پاکستانی عید قربان پر اپنے گھروں کو قربانی کے لئے بھاری رقوم بھیجتے ہیں جس سے ملک میں اربوں کا زر مبادلہ آتا ہے۔
ادھر وہ مویشی مالک جو جانور فروخت کرکے گاؤں واپس گیا ہے وہ اپنے گھر کی تعمیر کروائے گا۔ یا پھر دوسرے رکے ہوئے کام کرے گا۔ بیٹی کی شادی کرے گا۔ ٹیوب ویل لگوائے گا۔ یہاں پھر زر کی گردش کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ اینٹ والا سیمنٹ والا سرئے والا ٹائل والا الیکٹریشن ان سب کو روزگار ملا۔
یہ اگلے سال کے لئے گاؤں کے گلہ بان سے مزید دس پندرہ چھوٹے کٹے
خریدلیتا ہے۔ گلہ بان کو روزگار ملا۔
اب اندازہ کیجئے کہ میرے پانچ لاکھ اور میرے جیسے دوسرے لاکھوں کے پانچ لاکھ نے پورے ملک میں کیسی معاشی سرگرمی پھیلا دی اور یہ پیسہ میری جیب سے نکل کر کہاں کہاں تک جارہا ہے۔
اور یہ جتنے بھی لوگ اس کے ذریعے روزگار حاصل کررہے ہیں ان کے بھی بیوی بچے ہیں خرچے ہیں بچوں کو پڑھانا ہے اور دیگر ہزار خرچے اس پیسے سے ہی پورے ہونگے۔ اسی پیسے سے وہ حسب استطاعت زکواۃ خیرات بھی اداکرےگا۔ آپ صرف کسی ایک بندے کی قربانی کے پیسوں سے مدد کرکے وہ اجتماعی معاشی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے جو آپ قربانی کی صورت حاصل کرتے ہیں۔
تو جناب اگر میں کسی غریب بچے کے والد کو اس کی تعلیم کے لئے یہ پانچ لاکھ دے دیتا ہوں تو وہ بچے کی فیس کتابوں کے پیسے نکال کر بقایا رقم بینک میں ڈال دے گا اور زر منجمد ہوکر آگے نہیں بڑھے گا۔ بس ٹائیں ٹائیں فش۔
اس قربانی کے نتیجے میں جو معاشی پہیہ چلے گا اس کے ثمرات کے تحت ہزاروں لوگ مفت کے۔ واٹر کولر کے محتاج نہیں بلکہ اپنا ائر کولر، ریفریجریٹر بھی خرید سکیں گے۔
جبکہ قربانی کی صورت میرا پانچ لاکھ کہاں کہاں کس کس طریقے سے پہنچ رہا ہے اور اس کے ذریعے کتنے بچوں کی خوراک تعلیم اور زندگی گزارنے کا بندوبست ہورہا ہے یہ آپ کی عقل شریف نے کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ دراصل یہ جو قربانی سے بغض ہے اس کے پیچھے کیا ہے سب جانتے ہیں۔
قربانی کرنی چاہہیے اور دل کھول کر کرنی چاہیے یہ مذہبی فریضہ بھی ہے اور اس کے دنیاوی فائدے بھی ہیں بہت سے لوگوں کا روزگار وابسطہ ہے لیکن نمائشی کلچر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے پچاس لاکھ میں بیماریوں سے بھرا چربی کا پہاڑ خرہدنے سے بہتر ہے کہ اتنے پیسے میں قدرتی خوراک پر پلے ہوئے بیس جانور قربان کر دیے جائیں۔
جبکہ اللہ تعالی صاف صاف فرماتا ہے کہ اس تک نہ قربانی کے جانور کاگوشت پہنچتا ہےاور نہ خون۔ اس تک صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔