خلیج اردو
اسلام آباد: پنجاب اور کے پی میں انتخابات کا معاملہ ، سماعت کا اعلان ہوا تو چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے جانے والا نو رکنی بینچ پہلے پانچ اور پھر تین رکنی بینچ تک محدود ہو گیا ۔کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی تو کچھ کو بینچ سے الگ کر دیا گیا۔
سماعت سے انکارکرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت کے بعد بالاآخر تین رکنی بینچ نے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ۔۔28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے۔
29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟
30 مارچ کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین جبکہ 31 مارچ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی کیس سنننے سے معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تین اپریل کو آخری سماعت میں اٹارنی جنرل نے مطالبہ کیا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے،فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی۔ان کا کہناتھا کہ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانےکی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے، عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا جائے گا