پاکستانی خبریں

جنوبی ایشیا اور ففتھ جنریشن طیاروں کی نئی دوڑ ! تحریر طاہر وقاص

خلیج اردو
تحریر:طاہر وقاص
یہ ستائیس فروری 2019 کا دن تھا جب میں صبح تیاری کر کے دفتر کے لیئے گھر سے نکلا تو قریب ہی موجود نور خان ایئربیس سے دو جے ایف 17 تھنڈر طیارے ٹیک آف کرتے دکھائی دیئے۔ ان میں سفید رنگ کے میڈیم رینج ایس ڈی 10 ایئر ٹو ایئر میزائل لگے دور سے بھی بلکل صاف نظر آ رہے تھے۔ ٹیک آف کرتے ہی ان طیاروں نے اس طرح کی جارحانہ مینوورنگ شروع کی جیسے بہت جلدی میں ہوں۔

یہی وہ دن تھا جس دن انڈین سیاسی لیڈرشپ اور ان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں کے سامنے یہ بھیانک حقیقت کھل کر آ گئی کہ نا صرف ان کے اپگریڈڈ مگ 21 بلکہ نسبتاً جدید میراج 2000 اور سخوئی 30 طیارے بھی پاکستان کی ایئر فورس کے طیاروں کا ٹھیک طرح سے مقابلہ نہیں کر سکے۔ جس کا بعد میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان الفاظ میں اظہار بھی کیا کہ اگر رافال ہوتے تو یہ سب نا دیکھنا پڑتا۔ اس realization کے بعد ہی رافال طیارے حاصل کرنے کی پہلے سے جاری کوششوں میں مزید تیزی لائی گئی۔

رافال کے انڈیا پہنچنے کے کچھ ہی عرصے میں پاکستان نے چین سے جے 10 سی حاصل کر لیا تاکہ رافال کے آنے سے طاقت کا جو توازن انڈیا کے حق میں ہوا اسے کچھ حد تک بیلنس کیا جا سکے۔ جے 10 سی کی آمد کے ساتھ ہی ایک خطرناک ایئر ٹو ایئر میزائل پی ایل 15 بھی پاکستان پہنچ گیا جو اپنی رینج کے اعتبار سے نا صرف انڈیا بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے پاس موجود تمام ایئر ٹو ایئر میزائلوں پر بھاری تھا۔ البتہ بات یہاں تک محدود نہیں تھی۔ پاکستانی حکام کی نظر اب اگلی منزل پر مرتکز تھی۔

کچھ ہی عرصہ پہلے چند آفیشل اور اوپن سورس ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کے مطابق پاکستان چین سے جے 35 حاصل کرے گا جو ایک ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ ہے۔ لیکن ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ففتھ جنریشن اور سٹیلتھ فائٹر جیسے الفاظ اہم کیوں ہیں؟ کسی طیارے کا آنا پورے خطے میں ایک خبر کیوں بنا ہوا ہے؟

دراصل فورتھ جنریشن کے طیارے 70 کی دہائی کے درمیان میں بننا شروع ہو گئے تھے۔ تھرڈ جنریشن کے برعکس یہ طیارے زیادہ تر ملٹی رول تھے۔ یعنی ایئر ٹو ایئر اور ایئر ٹو گراؤنڈ دونوں اقسام کے آپریشن کر سکتے تھے۔ ان طیاروں میں پہلی بار فلائی بائے وائر کا کانسیپٹ متعارف کروایا گیا اور یہ طیارے ڈیزائن کے اعتبار سے unstable تھے۔ یعنی انہیں کمپیوٹر کے بغیر اڑانا ممکن نہیں تھا۔ سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن کے طیاروں کا ڈیزائن stable رکھا جاتا تھا لیکن یہ زیادہ مینوور نہیں کر سکتے تھے۔ unstable ڈیزائن کا فائدہ یہ ہوا کہ طیاروں کی مینوور کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔

اس کے علاوہ فورتھ جنریشن طیاروں میں پہلے سے بہتر انجن، الیکٹرانکس، کمپوزیٹ مٹیریل، ایکٹیو میزائل اور ایویانکس کا استعمال کیا گیا۔ ان سے پائلٹ کی سیچوایشنل awareness اور آپریشنل صلاحیتوں میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ فورتھ جنریشن طیاروں کی بہترین امریکی مثالیں ایف 15 اور ایف 16 ہیں۔ رشین سائیڈ پر سخوئی 27 اس کی اچھی مثال ہے۔

یہاں میں اپنے ذاتی فیورٹ ایف 16 کی تعریف بھی کرنا چاہوں گا۔ ایف 16 فائٹنگ فالکن (جسے بعد میں وائپر بھی کہا گیا) ہی وہ طیارہ تھا جو اپنے ساتھ فلائی بائی وائر اور اس طرح کے دوسرے جدید اور اہم کانسیپٹ لایا۔ اس سے پہلے طیاروں میں مختلف فنکشنز پرفارم کرنے کے لئے وہی بٹن لگے ہوتے تھے جو ہمارے گھروں میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح لیور کھینچے جاتے تھے جیسے پرانی مشینوں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن ایف 16 کی آمد سے طیاروں کی فورتھ جنریشن کی شروعات ہوئی۔ ایف 15 میں بھی ان تمام جدید کانسیپٹس کو ایف 16 کے بعد ہی عملی جامہ پہنایا گیا۔ تو وائپر اس لحاظ سے pioneer ہے۔

البتہ فورتھ جنریشن طیاروں کو وقت کے ساتھ ساتھ اپگریڈ بھی کیا جاتا رہا۔ جس کی بدولت ایک نئی کلاس، ایک نئی جنریشن کا وجود ہوا۔ اس کلاس کو ہم فور +، فور ++ اور 4.5 جنریشن بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کوئی آفیشل کلاسیفیکیشن نہیں۔ آفیشلی فورتھ کے بعد ففتھ جنریشن ہی آتی ہے۔ لیکن مختلف ایکسپرٹس اور فین بوائز نے اپنی آسانی کے لئے یہ کلاسیفیکیشن پیدا کی اور اس کی ایک کافی حد تک معقول وجہ بھی تھی۔

ایف 16 کا سب سے پہلا ماڈل بلاک 15 تھا جو پہلی بار 80 کی دہائی کے شروع میں مختلف ممالک کو بیچا گیا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ البتہ ایف 16 کا سب سے جدید ماڈل بلاک 70 ہے۔ اگر آپ باہر سے ان دونوں ماڈلز کا تقابلی جائزہ لیں تو آپ کو کوئی بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا لیکن اندر سے بہت سی بنیادی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے اب بلاک 15 اور بلاک 70 کی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں تو ان دونوں کو فورتھ جنریشن کا کہہ کر برابری نہیں کی جا سکتی۔ ایک اور مثال کے طور پر جے ایف 17 تھنڈر کا پہلا ماڈل بلاک ون تھا اور اب سب سے جدید ماڈل بلاک تھری ہے۔ ان دونوں ماڈلز کو بھی ساتھ کھڑا کر دیں تو دیکھنے میں دونوں طیاروں کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں لگے گا۔ لیکن اندر کے ساز و سامان میں بہت سی تبدیلیاں ہیں۔ جس طرح ایف 16 کے بلاک 15 اور بلاک 70 برابر نہیں اسی طرح تھنڈر کے بلاک ون اور بلاک تھری کی صلاحیتوں میں کافی سارا فرق ہے۔ تو اس فرق کو represent کرنے کے لئے یہ نئی کیٹیگری نکالی گئی۔

فور +، فور ++ اور 4.5 جنریشن کی مزید بہترین مثالیں رافال، یورو فائٹر، ای اے 18 گراؤلر ہیں۔ رشین سائیڈ پر اس کی اچھی مثالیں سخوئی 35 اور مِگ 35 ہیں۔ چائینیز سائیڈ پر جے 16 اس جنریشن کی اچھی مثال ہے۔

اس کے بعد بیسویں صدی کے آخر میں اگلی یعنی ففتھ جنریشن کے طیاروں پر کام کا آغاز ہوا۔ پچھلی یعنی فورتھ جنریشن کے مقابلے میں یہ کافی بڑی چھلانگ تھی۔ ان دونوں کے درمیان سب سے بڑا فرق جو دیکھنے سے بھی سب سے پہلے نوٹ کیا جاتا ہے وہ سٹیلتھ ڈیزائن ہے۔ اس جنریشن پر عملی کام تو سب سے پہلے امریکہ نے شروع کیا لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سٹیلتھ کا بنیادی خیال سب سے پہلے ایک رشین ریاضی دان نے پیش کیا تھا جس کے تھیورم کے مطابق اگر طیارے کی ساخت میں 90 ڈگری کے کوئی زاویئے نا ہوں تو یہ ریڈار کی لہروں کو واپس بھیجنے کے بجائے ادھر ادھر منعکس کر دے گا۔

اس خیال کی بھنک امریکیوں کو پڑ گئی اور اس کی عملی شکل دنیا نے پہلی بار ایف 22 ریپٹر کی صورت میں 2005 میں دیکھی۔ ریڈار کی لہروں کو واپس بھیجنے کے پیمانے کو ریڈار کراس سیکشن یا RCS کہتے ہیں۔ طیارے کا RCS جتنا کم ہو اسے ریڈار سے پکڑنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فورتھ جنریشن کے پرانے ایف 16 طیارے کا RCS چار مربع میٹر ہوتا ہے۔ عرب امارات کے پاس جو نسبتاً جدید ایف 16 بلاک 60 ہے اس کا RCS آدھے سے بھی کم یعنی صرف 1.2 مربع میٹر ہے۔ جبکہ ففتھ جنریشن کے ایف 22 ریپٹر کا یہی RCS صرف 0.0001 مربع میٹر ہے۔ اس سے آپ ریپٹر کی سٹیلتھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیلتھ کے حصول کے لئے ایک خاص قسم کا پینٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ریڈار absorbent مٹیریل ہوتے ہیں جو ریڈار کی لہروں کو واپس بھیجنے کے بجائے کچھ حد تک جذب کر لیتے ہیں۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگوں کے خیال میں سٹیلتھ کسی بھی طیارے کو ریڈار سے غائب کر دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سٹیلتھ طیارے بھی ریڈار کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب تک انہیں ڈیٹیکٹ، ٹریک اور لاک کیا جاتا ہے (کسی بھی طیارے پر کامیابی سے میزائل داغنے کے یہی تین مراحل ہوتے ہیں) تب تک یہ طیارے اپنا کام پورا کر چکے ہوتے ہیں۔ اور واپس جاتے طیارے کو ایئر ڈیفنس سے نشانہ بنانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔ یعنی ان طیاروں کو ریڈار سے غائب ہونے کے لیئے نہیں بلکہ ٹریک کرنے میں مشکل کے لیئے بنایا گیا ہے۔ جب تک ریڈار اپنی زمہ داری پوری کرتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اور جدید جنگی عوامل میں یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ پہلے کون کسے دیکھ سکتا اور پہلے کون شوٹ کر سکتا ہے۔

ففتھ جنریشن طیاروں کی ایک اور اہم صلاحیت نیٹ ورک سینٹرک جنگ ہے۔ اگرچہ یہ صلاحیت 4.5 جنریشن کے طیاروں میں بھی آہستہ آہستہ جگہ بنا رہی ہے لیکن ففتھ جنریشن طیارے یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ نیٹورک سینٹرک جنگ کا مطلب ہے کہ آپ جس پلیٹ فارم پر میدان جنگ میں موجود ہیں وہ آس پاس موجود آپ کے دوسرے دوست پلیٹ فارمز کو نا صرف اپنا حاصل کردہ ڈیٹا بھجوا رہا ہے بلکہ ان کا ڈیٹا موصول بھی کر رہا ہے۔ اس طرح تمام پلیٹ فارمز لڑائی کی تمام انفارمیشن ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں اور آپ کے سامنے ایک کلیئر پکچر ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور فوری خطرہ کہاں سے جنم لے سکتا ہے۔ اس کام میں ایف 35 کو بے تاج بادشاہ مانا جاتا ہے۔ جتنا ڈیٹا اور انفارمیشن ایف 35 جزب کرنے، پائلٹ کے لیئے آسان بھاشا میں disseminate کرنے، دوسرے پلیٹ فارمز کو بھیجنے اور ان سے ریسیو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ایسی طاقت کسی بھی اور طیارے میں نہیں۔ اب تک تو نہیں لیکن مستقبل قریب میں اگلی جنریشن کے طیارے یہ کام اور بھی بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔ بہرحال نیٹورک سینٹرک لڑائی تین C پر مشتمل ہوتی ہے۔ کمانڈ، کنٹرول اور کمیونیکیشن، تین سی۔

اس کے علاوہ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس میں سپر کروز کی صلاحیت ہوتی ہے جس سے فیول نسبتاً کم خرچ ہوتا ہے۔ تھرسٹ ویکٹرنگ کی صلاحیت ہائی مینوور ایبیلیٹی پیدا کرتی ہے اور طیارے میں جدید ایویانکس بھی ہوتے ہیں جو اوور آل صورتحال کو درست معنوں میں پائلٹ تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتے ہیں لیکن یہ تمام ٹیکنیکل نقاط کسی اور دن کے لیئے رکھ لیتے ہیں۔ آج زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس قسم کے طیارے خطے کی جیو پولیٹیکل صورتحال پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں؟

دراصل پاکستان کے ففتھ جنریشن طیاروں کے حصول کے اعلان کے بعد انڈین سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک پینِک کا شکار ہے۔ سابق انڈین سیکیورٹی حکام کچھ یوٹیوب پوڈکاسٹس پر بھی اس پینک کا کچھ حد تک اظہار کر چکے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ پیچھے رہ گئے ہیں یا رہ جائیں گے۔ اور اب پینک بائینگ قسم کی acquisition کی تیاری کی جا رہی ہے۔

البتہ مشکل یہ ہے کہ آپشن زیادہ نہیں۔ بہت تھوڑے ہیں۔ بہت کم ممالک اب تک ایک آپریشنل ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہ صلاحیت صرف تین ممالک کے پاس ہے۔ چین روس اور امریکہ۔ اگرچہ جنوبی کوریا اور ترکی بھی مقابلے میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ابھی نئے ہیں۔ آپریشنل طیارے صرف ان تین ممالک نے ہی بنائے ہیں۔ چین نے اب تک دو ففتھ جنریشن فائٹر جے 20 اور جے 35 بنائے ہیں۔ روس نے ایک یعنی سخوئی 57 اور امریکہ نے دو یعنی ایف 22 ریپٹر اور ایف 35 بنائے ہیں۔ چائینیز جے 35 ابھی مختلف تجربات سے گزر رہا ہے لیکن امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی یہ تجربات مکمل ہو جائیں گے۔ پاکستان بھی یہی طیارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بہرحال چین تو اپنا کوئی فائٹر انڈیا کو نہیں دیتا اور نا ہی انڈیا لے گا۔ تو آگے چلتے ہیں۔

اگر realistically دیکھا جائے تو انڈیا کے پاس آپشن صرف دو ہی ہیں۔ ایک امریکی ایف 35 جو حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے انہیں آفر کیا جا چکا ہے اور دوسرا رشین سخوئی 57۔ روس نے بھی حال ہی میں انڈیا کو سخوئی 57 کی جوائنٹ پروڈکشن کی آفر کی ہے۔ ایف 22 ریپٹر ان میں سے ایک آپشن اس لیئے نہیں ہے کیونکہ امریکہ نے یہ طیارہ اپنے قریب ترین اتحادیوں یعنی برطانیہ جاپان یا اسرائیل کو بھی فروخت نہیں کیا۔ ایف 22 ریپٹر اپنی مینوفیکچرنگ کے بعد سے ہی کانگریس کی سخت نگرانی کے تحت ہے اور امریکی کانگریس اسے کسی بھی ملک کو ایکسپورٹ کرنے پر تیار نہیں۔ حالانکہ ماضی میں برطانیہ کافی حد تک امریکہ پر دباؤ ڈال چکا ہے کہ یہ طیارے انہیں دیئے جائیں لیکن انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔

ایک realistic آپشن یعنی رشین سخوئی 57 کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ یہ طیارہ منتخب کرنے کے انڈیا کو متعدد فائدے ہوں گے۔ انڈین ملٹری کا موجودہ ایکو سسٹم بہت حد تک روس سے منسلک ہے۔ انڈیا اپنے زیادہ تر ہتھیار روس سے حاصل کرتا ہے۔ تو لوجسٹیکلی دیکھا جائے تو نئی سپلائی چین بنانے جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ رشین سخوئی 57 انڈیا کے پاس پہلے سے موجود دنیا کے بہترین ایئر ڈیفنس سسٹمز میں سے ایک یعنی ایس 400 سے کمیونیکیٹ بھی کر سکے گا۔

یہ پوائنٹ کافی اہم ہے۔ کیونکہ سخوئی 57 کے برعکس اگر انڈیا امریکہ سے ایف 35 حاصل کرتا ہے تو امریکیوں کی پہلی شرط ہی ایس 400 کے بارے میں ہوگی۔ امریکی حکام انڈین حکام سے یہ لازماً پوچھیں گے کہ ایس 400 کا کیا کرنا ہے۔ ایس 400 چونکہ رشین سسٹم ہے اور ایف 35 سے متعلق کچھ خفیہ آپریشنل معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو امریکہ کسی صورت بھی ایس 400 اور ایف 35 کو قریب نہیں آنے دے گا اور یہ سب سے بڑی شرط ہوگی۔ اس شرط کی موجودگی میں کسی بھی محاذ آرائی کی صورت میں انڈیا کے لیئے دنیا کے بہترین ڈیفنس سسٹم ایس 400 اور دنیا کے بہترین فائٹر جیٹ ایف 35 کو ایک ساتھ ایک ہی علاقے اور ایک ہی وقت میں آپریٹ کرنا مشکل بنا دے گا۔ اگر صرف لوجیسٹکس کو ہی مد نظر رکھیں تو یہ ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگا۔ لیکن اگر انڈیا سخوئی 57 کو منتخب کرتا ہے تو یہ مسائل نہیں ہوں گے۔ نا صرف یہ مسائل نہیں ہوں گے بلکہ سخوئی 57 ایس 400 سے کمیونیکیٹ کر کے فورس ملٹی پلائر کا کام بھی کر سکتا ہے۔ یعنی ایس 400 اور سخوئی 57 باہمی کمیونیکیشن اور مدد کے زریعے جنگی مقاصد کے حصول کو زیادہ آسان بنا دیں گے۔

دوسری جانب اگر انڈیا ایف 35 منتخب کرتا ہے تو باقی سب ایک سائیڈ پر۔ سب سے پہلے ترکی کے نیشنلسٹ عناصر کے لئے کافی مزاحیہ قسم کی صورتحال بن جائے گی۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور میں ترکی کو صرف اس وجہ سے ایف 35 کے پروگرام سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ اس نے روس سے ایس 400 خریدا تھا۔ ایس 400 کی موجودگی میں امریکہ ترکی کو ایف 35 نہیں بیچنا چاہتا تھا۔ اب اگر ایس 400 کی موجودگی میں انڈیا کو ایف 35 کی آفر کی جا رہی ہے تو ترکی کے لیئے یہ کافی ironic ہوگا۔ ترکش نیشنلسٹس تو پہلے ہی ایف 35 کے حوالے سے یہ سوال کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہمیں کیوں نکالا۔ البتہ اس پوائنٹ کے خلاف یہ آرگیو کیا جا سکتا ہے کہ ترکی چونکہ نیٹو کا ممبر ملک ہے تو اس وجہ سے ان پر سختی زیادہ کی گئی۔ بہرحال ٹاپک پر واپس آتے ہیں۔

اگر سخوئی 57 حاصل کرنے کے منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنرلی رشین سخوئی 57 کو ایک اچھا ففتھ جنریشن طیارہ نہیں سمجھا جاتا۔ روس نے یوکرین کے محاذ پر بھی اس کا استعمال بہت محدود حد تک کیا ہے۔ یہاں تک کہ چند سال پہلے انڈیا نے خود اس پروجیکٹ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس وقت وجہ یہ بتائی گئی کہ طیارہ انڈین ایئر فورس کی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ ایوی ایشن اور ایئر کرافٹ کی پروڈکشن کا حساب کتاب بھی جتنا گُڑ ڈالو اتنا میٹھا والا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اچھی چیز خریدنی ہے تو جیب میں پیسے بھی ہونے چاہیئں۔ کیونکہ اچھی چیز مہنگی ملتی ہے۔ سخوئی 57 کی فی یونٹ قیمت صرف پینتیس ملین ڈالرز کے آس پاس ہے۔ یہ جے ایف 17 تھنڈر کے لیول کی قیمت ہے۔ اس لیئے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ روس نے پینتیس ملین ڈالرز میں کتنا ایک اچھا طیارہ بنا لیا ہوگا۔

اس کے علاوہ سخوئی 57 کے حصول کی صورت میں انڈیا کو امریکی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انڈیا پر پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ حال ہی میں منتخب ہوئے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو پہلے ہی انڈیا کو ٹیرف کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تو یہ پوائنٹ بھی انڈین سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مد نظر ضرور ہوگا۔

کسی بھی طیارے کی acquisition کا پروسیس کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ اگر انڈین وزیراعظم نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ایف 35 کی آفر کا مثبت جواب دیتے ہیں تب بھی بات طے ہو جانے کی صورت میں پہلے تو امریکہ ایک ایک ٹیکنیکل ڈیٹیل پرکھے گا کہ انڈیا کے ایف 35 میں کس قسم کا سامان (ہتھیار ایویانکس وغیرہ) لگانا ہے اور کیا نہیں لگانا۔ یعنی ابھی امریکہ فیصلہ کرے گا کہ انڈیا کو کونسی چیزیں دینی ہیں اور کونسی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ تو اوپر بتا چکا ہوں۔ یعنی ایس 400۔ اس کے بعد بات چیت آگے بڑھے گی۔ تمام ڈیٹیلز فائنل ہو جانے کے بعد پروڈکشن شروع ہوگی اور اس میں بھی کچھ سال لگ ہی جائیں گے۔

عام لوگوں کی پرسیپشن کے برعکس ایسا نہیں ہوتا کہ جیسے ہی طیارہ پہنچے گا انڈین ایئر فورس اسے اڑانا شروع کر دے گی یا پاکستان چائینہ کے خلاف تعینات کر دے گی۔ طیارہ جب انڈیا کے پاس پہنچے گا تو اس کی ٹریننگ کا عمل شروع ہوگا۔ انڈیا کے پائلٹس کو ایف 35 میں لڑائی کے ٹیکٹیکس ڈیویلپ کرنے پڑیں گے اور اس پورے پروسیس میں بھی کم سے کم ڈیڑھ دو سال تو لگ سکتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان کی چین سے بات ہو چکی ہے اور جہاں تک میرا اندازہ ہے اب تک تمام ٹیکنیکل ڈیٹیلز بھی طے پا چکی ہوں گی۔ اگرچہ اس سلسلے میں مختلف اوپن سورس زرائع 2026 تک کی ٹائم لائن بتاتے ہیں لیکن میرے خیال میں اتنی جلدی یہ طیارے پاکستان لانا ممکن نہیں۔ ہاں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں جے 35 پاکستان پہنچ چکا ہوگا۔ اگر چین نے اگلے چند سالوں کا وعدہ کیا ہے تو اس کا مطلب جے 35 طیارے اسمبلی لائن یعنی پروڈکشن کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ چونکہ چین اپنے دفاعی معاملات کو لے کر کافی حساس واقع ہوا ہے تو اس قسم کی انفارمیشن کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ اصل انفارمیشن آخری حدوں تک چھپائی جاتی ہے۔ بہرحال اگر اگلے چند سالوں میں پاکستان جے 35 حاصل کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں چند سال کا ہیڈ سٹارٹ مل گیا۔ تو اس حساب سے پاکستان اپنے ففتھ جنریشن فائٹر جے 35 کے ٹیکٹیکس بھی انڈین ایئر فورس سے کئی سال پہلے ڈیویلپ کر چکا ہوگا اور پھر اسی حساب سے پاکستانی ایئر فورس ان طیاروں کی آپریشنل تعیناتی بھی پہلے کرے گی۔

انڈیا ایف 35 لینے سے اس لیئے بھی کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیونکہ امریکی ہتھیار مختلف قسم کی پابندیاں بھی ایک پیکج کی صورت میں ساتھ لاتے ہیں۔ آپ امریکی ہتھیاروں کو صرف ہتھیار کے طور پر نہیں بلکہ امریکی خارجہ پالیسی کی ایک ایکسٹینشن کے طور پر دیکھیں گے تو چیزیں زیادہ واضح ہو کر سامنے آئیں گی۔ اگر امریکہ آپ کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے تو مطلب اب آپ کو صرف امریکی جنگیں ہی لڑنی ہیں۔ اگر آپ امریکہ سے ہتھیار خرید رہے ہیں تو آپ کو صرف ان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو امریکی حکام ان ہتھیاروں کی سروسز اور سپلائی لائن میں رخنے ڈالنا شروع کر سکتے ہیں۔ یہ حالات پاکستان کے لیئے بلکل بھی اجنبی نہیں کیونکہ پاکستانی ایف 16 کی سپلائی لائن (ہتھیار، مینٹیننس اور سروسز وغیرہ) نوے کی تقریباً پوری دہائی میں تعطل کا شکار رہی۔ اور سپلائی لائن کے بغیر کوئی طیارہ زیادہ دیر نہیں اڑ سکتا۔ انڈیا چونکہ اب تک اپنی خارجہ پالیسی کافی حد تک آزادی سے چلانے میں کامیاب رہا ہے تو اس وجہ سے وہ ایف 35 خریدنے کے معاملے میں کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ ایف 35 انڈین ملٹری کے ایکو سسٹم میں انٹیگریشن کے لئے ایک مہنگا آپشن ہے۔ اگر انڈیا اپنی ایئر فورس کے لئے دو سکوارڈن حاصل کرتا ہے تو یقیناً یہ ناکافی ہوگا۔ ہاں ایف 35 بی انڈیا کی نیوی کے لئے ایک بہتر چوائس ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر یہ تھوڑی تعداد میں بھی حاصل کر لیئے جائیں تو ایئرکرافٹ کیریئر آپریشن کے لیئے ایک مناسب پلیٹ فارم ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس انتخاب کا انڈیا کو یہ فائدہ تو ہوگا ہی کہ وہ دنیا کی ان ایلیٹ ایئر فورسز میں شامل ہو جائیں گے جو ایف 35 جیسے شاندار طیارے آپریٹ کریں گے۔

آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرا ہوگا کہ ایف 35 اور جے 35 میں سے کونسا طیارہ بہتر ہے؟ اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلے پر ہوں گے تو جیت کس کے حصے میں آئے گی؟ اصل میں ایسے سوالات کا جواب دینا کافی مشکل ہے۔ کیونکہ جے 35 سے متعلق پبلک میں دستیاب معلومات تقریباً نا ہونے کے برابر ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ چین اپنی دفاعی مصنوعات کی معلومات کو لے کر کافی حساس ہے اس وجہ سے ان دونوں طیاروں کا آپس میں تقابلی جائزہ ممکن نہیں۔ یا یوں کہنا چاہیئے کہ فلحال ممکن نہیں۔ البتہ امریکی ملٹری جنرل چین کے پہلے ففتھ جنریشن فائٹر یعنی جے 20 کو جنگی حالات میں ایف 35 کے مقابل پرفارم کرتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں یہ پرفارمینس امپریسیو تھی۔ یعنی جے 20 ان کی امیدوں سے بہتر ثابت ہوا۔ تو یہ assume کرنا غلط نہیں ہوگا کہ چونکہ جے 20 کے تجربات سے سبق حاصل کر کے ہی چین نے جے 35 بنایا ہے تو یہ جے 20 سے بہتر ہی ہوگا۔

اس تحریر کے لکھے جانے تک ابھی بھی معاملات سو فیصد کلیئر نہیں۔ ابھی انڈیا کو دونوں طیاروں یعنی ایف 35 اور سخوئی 57 کی آفر کی گئی ہے۔ انڈیا سے کیا جواب آتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ اگر وہ واقعی ایف 35 لے لیتے ہیں تو یہ بات تو طے ہے کہ یہ ان کی ایئر فورس کے لیئے کافی بڑا بوسٹ ثابت ہوگا۔ معاملات فلحال کلیئر اس وجہ سے نہیں کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سارے پکے اور متوقع اتحادیوں کو اسی طرح امریکہ بلا رہے ہیں۔ بلکہ سمن کر رہے ہیں کہنا زیادہ درست ہوگا۔ وہاں ٹرمپ کی نئی شرائط و خواہشات پر ڈسکشن ہوتی ہے اور پھر فیصلے کیئے جاتے ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ نریندر مودی کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ کافی دلچسپ ہوگا کہ وہ کیا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں صورتیں بہت دلچسپ ڈیویلپمنٹس پیدا کریں گی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button