
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں سمیت انکے کاروبار اور نوکریاں متاثر ہوئی ہیں۔ بیشتر ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اندورن ملک اور بیرون ملک سفر پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ جس کے باعث بہت سارے لوگ جو وبا سے پہلے اپنے ملکوں میں چھٹیوں پر گئے تھے وہیں پھنس کر رہ گئے۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے اور مالی مسائل کا شکار ہوئے۔
متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والوے بیشتر افراد کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنہ کرنا پڑا ہے۔ بہت سارے لوگ جو یو اے ای سے باہر پھنس گئے تھے واپس نہ آ پائے اس وجہ سے انہیں نوکریوں سے نکال دیا گیا۔
نجی خبررساں ادارے گلف نیوز کے ایک قاری کو بھی صورتحال سے گزرانا پڑا ہے۔ متاثرہ شخص نے گلف نیوز کو لکھا کہ وہ ایک ایمرجنسی پر چھٹی لے کر بھارت گیا ہوا تھا۔ لیکن بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے فوری طور پر یو اے ای واپس نہیں آ پایا۔ متاثرہ شخص نے مزید لکھا کہ جب پروازیں کھلی تو 15 جولائی کو یو اے ای واپس آگیا اور اسنے ایمیل کے ذریعے دفتر کو آگاہ کیا۔ لیکن اسے اس کی کمپنی کے سی ای او کی جانب سے ایمیل کر کے بتایا گیا کہ کمنی میں اس کی ضرورت نہیں رہی لہذا اسے نوکری سے فارغ کردیا گیا ہے۔
متاثرہ شخص کو مزید بتایا گیا کہ کمپنی فروخت ہو چکی ہے اور وہ اپنے واجبات کے لیے پرانے مالک سے رابطہ کرے۔ اس نے پرانے مالک سے تنخواہ کے لیے رابطہ کیا لیکن اسے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔
متاثرہ شخص گلف نیوز کے توسط سے جاننا چاہتا کہ اسے بتایا جائے کہ اس کی 23 سالہ نوکری پنشن یا گریجوٹی اور 57 دنوں کی واجب الادا تنخواہ کون دے گا؟
ایسے معاملات میں آپ کے حقوق کیا ہیں اور آپ کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لیے کونسے راستے موجود ہیں؟
نجی خبررساں ادارے گلف نیوز نے متاثرہ شخص کے سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ماہر قانون ڈاکٹر حسن الہیس سے رابطہ کیا۔
ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ ” اگر وبائی صورتحال میں آپ اپنی چھٹی سے واپس نہیں آ سکتے تو آپ کے آجر (یا کمپنی) کی جانب سے آپ کو نوکری سے نکالنا ایک صوابدیدی (دوسرے لفظوں میں غیر قانونی) فیصلہ ہے۔ ایسے فیصلے کی وجہ سے آجر پر لازم ہے کہ وہ ملازم کو 3 ماہ تک معاوضہ بطور ہرجانہ ادا کرے گا۔
اور اسی طرح سے آپ اپنے آجر یا کمپنی کے خلاف لیبر کورٹ میں مقدمہ درج کروا سکتے ہیں”۔
گلف نیوز کے قاری طرف پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ” کمپنی کا مالک تبدیل ہونے سے کمپنی اپنی ذمہ داریوں سے مبرا نہیں ہوگئی۔ کیونکہ کمپنی ایک آزاد اور قانونی وجود رکھتی ہے۔ اس لیے آپ اپنے تمام تر واجبات کا دعویٰ کمپنی پر کرسکتے ہیں۔ اور جہاں تک آپ کے ویزے کے ایکسپائر ہو جانے کو تعلق ہے تو آپ کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے بعد یہ بات لیبر ڈیپارٹمنٹ یا عدالت سے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ویزے کے حوالے بتاتے ہوئے آپ کو کورٹ میں مقدمے رجسٹریشن کا ثبوت دینا پڑے۔
تاہم، مقدمہ چلنے کے ساتھ ساتھ آپ یو اے ای میں رہ سکتے ہیں اور نئی نوکری بھی حاصل کر سکتےہیں، لیکن اس میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی صوابدید شامل ہوگی”۔
نیز "آپ اپنے کمپنی کے خلاف گریجوٹی یا پنشن، یا کسی بھی قسم کے واجبات کی ادائیگی کے لیے لیبر کورٹ میں مقدمہ درج کروا سکتے ہیں”۔
لیبر کورٹ میں مقدمہ کیسے درج کرواتے ہیں؟
آپ اپنے آجر یا کمپنی کے خلاف مقدمہ یو اے ای کی وزارت ہیومن ریسورس (MOHRE) کے پاس درج کروا سکتے ہو۔
- جس کے لیے شکایت کنندہ کو سب سے پہلے ملازمت کے حوالے سے تنازعہ کی شکایت MOHREکے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں درج کروانا ہوگی۔
- جس کے بعد متعلقہ محکمہ دونوں فریقین کو طلب کرے گا اور تنازعہ کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ تاہم اس مرحلے پر دونوں فریقین پر تنازعہ کے حل کو قبول کرنا لازم نہیں ہوتا۔
- اگر تنازعہ احسن طریقے سے حل نہیں ہوا تو متعلقہ محکمہ 2 ہفتے کے اندر اندر کیس متعلقہ لیبر کورٹ کو بھیجنے کا پابند ہوتا ہے۔
- کیس عدالت میں جانے کے بعد متعلقہ عدالت کیس ملنے کے 3 دن کے اند اندر پیشی کی تاریخ دیتی ہے اور دونوں فریقین کو نوٹفیکشن جاری کر دیتی ہے۔
Source: Gulf News