
سوال: میں گزشتہ 5 سال سے ایک نجی کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ ایک مہینہ پہلے میری کمپنی نے مجھے نوکری سے نکال دیا اور مجھے ایمیل کےذریعے ایک لیٹر بھیجا جس میں لکھا تھا کہ میں اپنے واجبات وصول کر لوں۔ مجھے ددستخط کرنے تھے اور لکھنا تھا کہ میں اپنے واجبات وصول کر چکا ہوں، لیکن کمپنی نے واجبات ادا نہیں کیے تھے۔ بلکہ انہوں نے مجھے عدالت سے رجوع کرنے کو کہا۔ میرے ساتھ کمپنی کی طرف سے دھوکہ کیا گیا تھا، ایسے میں میرے پاس کونسے قانونی راستے موجود ہیں؟
جواب:
ملازم کے دسختط واجبات وصول کرنے کے ثبوت کے طور پر اس صورت میں قابل قبول ہیں اگر یہ ملازمت ختم کے بعد کیے گئے ہوں تو۔ 6 جون 2005 میں دبئی کورٹ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملازم کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی خط کے مندرجات کو ملازمت کے معاہدے تحت یا اس کے قانونی طورپر مقرر کردہ حقوق کی خلاف ورزی کے تحت اس کے کسی حق سے دستبرداری تصور نہیں کی جائے گی۔ سوائے اس صورتحال میں کہ اگر یہ چھوٹ دونوں فریقین کے درمیان ملازمت کے اختتام پر دی گئی ہو۔
بہرحال آپ ابھی بھی عدالت میں مقدمہ درج کروانے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن یہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ کمپنی نے آپ کو واجبات ادا نہیں کیے۔ یہ ثابت کرنےکے لیے آپ گواہ، تحقیق، یا ماہرین کی مدد لے سکتے ہیں۔
عدالت نے اسی طرح کے ایک واقعہ کی جانچ بھی کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے ” ملازم کی جانب سے کہا گیا ہے اسے اس کی کمپنی کی جانب سے اس کے کام واجبات ادا نہیں کیے گئے اور اس سے کچھ ایسے کاغذات پر دستخط لے لیے گئے ہیں جن کے مندرجات وہ سمجھ نہیں پایا کیونکہ جس زبان میں وہ کاغذات لکھے ہوئے تھے وہ زبان اسے نہیں آتی تھی۔ اور ملازم کی جانب سے درخواست کی گئی ہے یہ سب ثابت کرنے کے لیے کیس انویسٹیگیشن کے حوالے کیا جائے۔ ایویڈنس لاء کے آرٹیکل 37 کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ عدالت میں ثبوت گواہ کی گواہی کے ساتھ قابل قبول ہوں گے، عدالت کی طرف شواہد کی شہادت کی اجازت دینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ تحریری طور پر ثابت کیا جانا چاہیے ۔ لہذا اس حوالے سے ملازم کی درخواست قبول کیے جانے کا فیصلہ غلط نہیں ہوگا۔]حوالہ: لیبر اپیل نمبر 2003/197 [
مزید برآں، ٹرائل کورٹ کے پاس کیس کی حقیقت جاننے کے لیے کسی بھی قسم کی دستاویز حاصل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اور یو اے ای کے وفاقی قانون کے آرٹیکل 125 کے تحت آپ کا آجر آپ کو آپ کی ملازمت سے متعلقہ تمام دستاویزات اور دیگر اشیاء فراہم کرنے کا پابند ہے۔
Source: Gulf News