
خلیج اردو – سی این بی سی سے جمعرات کو ایک انٹرویو میں الامارات کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او)عادل الرضا نے کہا ہے کہ ’’ یہ دو حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے اور یقینی طور پر بہت سے دوسرے شعبے بھی ہیں جن میں اس طرح کے معاہدوں میں فائدہ اٹھایا جائے گا۔ایوی ایشن ان میں سے ایک مرکزی شعبہ ہے۔اسرائیل یا یو اے ای یا دبئی اور تل ابیب کے درمیان کوئی بھی پرواز چلانے سے قبل ہمیں ایک سمجھوتے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
عادل الرضا کا مذیدکہنا تھا کہ ’’خطے میں طرفین کی جانب سے پروازوں کی بحالی کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور کاروبار کے بہت زیادہ مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘
العربیہ نیوز کے مطابق جب اس سلسلے میں الامارات کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ کسی بھی نئے روٹ پر پروازیں چلانے کے لیے فضائی ٹریفک کے حقوق اور حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’ جب یہ منظوری مل جائے گی اور شہری ہوابازی کے شعبے میں دو طرفہ سمجھوتا طے پاجائے گا تو امارات پروازیں شروع کرنے سے متعلق کسی بھی فیصلے سے قبل مارکیٹ کی طلب اور مختلف آپریشنل عوامل کا جائزہ لے گی۔کسی نئی منزل کے لیے پروازیں چلانے سے متعلق فی الوقت تو ہمارے پاس کوئی اعلان نہیں ہے۔‘‘
تاہم دونوں ملکوں کے درمیان ابھی براہ راست پروازیں چلانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے شہریوں اور سیاحوں کے لیے پروازیں چلانے کا پروگرام مجموعی معاہدے کا حصہ ہے۔
اسرائیل نے ایک روز قبل ہی واضح کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے سیاحوں کے پاسپورٹس پر مہر نہیں لگے گی۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نزار عمر نے العربیہ کو بتایا کہ ’’اسرائیل میں آنے والے سیاحوں کے پاسپورٹس پر بالعموم بارڈر کنٹرول (ہوائی اڈوں )پرمہر نہیں لگائی جاتی ہے بلکہ انھیں ایک کارڈ کے طور پر مجاز کاغذ کا ٹکڑا دیا جاتا ہے جس کو دکھا کر وہ ملک داخل ہوسکتے ہیں۔‘‘
العربیہ نیوز کے مطابق اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں سمجھوتے طے بھی پاچکے ہیں۔جن میں سے ایک دونوں ممالک کرونا وائرس کی وَبا سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں اشتراکِ عمل کریں گے۔اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان فون پر روابط بحال ہوچکے ہیں اور پہلے سے بند ویب گاہیں کھول دی گئی ہیں۔