کالم

ایران سے قدرتی گیس: پاکستان کا خواب یا ایک نامکمل معاہدہ؟

خلیج اردو
تحریر محمد عبدالسلام
دنیا میں توانائی کی سیاست ہمیشہ سے بین الاقوامی تعلقات کا ایک اہم جز رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان قدرتی گیس پائپ لائن کا منصوبہ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ منصوبہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوا، لیکن آج تک اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ اس تحریر میں ہم اس معاہدے کی تاریخ، اس پر درپیش چیلنجز، پاکستان کی حکومتوں کی نااہلی اور مستقبل کے امکانات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

پاکستان اور ایران نے 1995 میں قدرتی گیس کی خرید و فروخت اور ایک طویل پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے مطابق، ایران سے پاکستان تک ایک گیس پائپ لائن تعمیر ہونی تھی جو پاکستان کی توانائی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہوتی۔ یہ منصوبہ "امن پائپ لائن” کے نام سے بھی جانا جانے لگا، کیونکہ اس کا مقصد خطے میں اقتصادی استحکام لانا تھا۔ ایران، جو کہ قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے، پاکستان کے لیے ایک فطری شراکت دار تھا۔ پاکستان کو بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایک مستحکم ذریعہ درکار تھا، اور ایران کی گیس ایک بہترین آپشن تھی۔

معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد، امریکہ نے اس منصوبے کی سخت مخالفت شروع کر دی۔ اس کی بنیادی وجہ ایران پر عائد امریکی پابندیاں تھیں، جو کہ اس وقت امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصر تھا۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ ایران کسی بھی قسم کے بڑے اقتصادی معاہدے کا حصہ بنے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔ امریکہ نے پاکستان کو اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرنے کے لیے متبادل پیشکشیں بھی کیں، جن میں تاجکستان سے پاکستان تک بجلی کی لائن بچھانے اور پاکستان کے لیے ایل این جی (مائع قدرتی گیس) کے ٹرمینل کی تنصیب شامل تھیں۔ تاہم، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جو ایران کے ساتھ گیس منصوبے کی جگہ لے سکتا۔

یہاں پر پاکستانی حکومتوں کی کمزوری اور نااہلی کا پہلو سامنے آتا ہے۔ 1995 میں جب معاہدہ ہوا، اس وقت پاکستان کو پورے منصوبے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے تھا، اور اس کے لیے ایک مضبوط حکومتی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے تھی۔ لیکن بدقسمتی سے، پاکستانی حکومتوں نے نہ تو اس معاہدے کو مکمل کرنے کی طرف سنجیدہ اقدامات کیے، اور نہ ہی اپنے بین الاقوامی تعلقات اور معاہدے کی نوعیت کو بہتر طور پر سمجھا۔

پاکستانی حکومتی اداروں کی آپسی عدم ہم آہنگی، سیاسی عدم استحکام اور فیصلہ سازی میں دیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاہدے پر وقت پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ حکومتیں اقتدار کی تبدیلیوں کے سبب اس معاملے پر یکجا نہیں ہو سکیں، جس سے منصوبے کی تکمیل میں مزید تاخیر ہوئی۔

2010 میں پاکستان اور ایران نے دوبارہ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کیے، لیکن اس بار ایک انتہائی سخت شق بھی شامل کی گئی۔ پیرس میں ہونے والے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ اگر 2015 تک کسی بھی فریق نے معاہدے کی تکمیل میں تاخیر کی تو اسے روزانہ 1 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ جب 2015 میں معاہدے کی ڈیڈلائن ختم ہوئی اور پاکستان نے اپنی طرف سے پائپ لائن تعمیر نہ کی، تو ایک نیا معاہدہ کیا گیا، جس میں 2024 تک توسیع دے دی گئی۔ اس دوران ایران اپنی طرف سے پائپ لائن کی تعمیر مکمل کر چکا تھا، جبکہ پاکستان بدستور تاخیر کا شکار رہا۔ یہاں پر ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکومت نے معاہدہ کا جائزہ لئے بغیر دستخط کئے جو اب پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ۔

اب، 2024 میں معاہدے کی مدت مکمل ہو چکی ہے، اور ایران نے پاکستان کو حتمی وارننگ دے دی ہے۔ اگر اس بار بھی پاکستان نے پراجیکٹ پر عمل درآمد نہ کیا، تو ایران قانونی کارروائی کے تحت پاکستان پر جرمانہ عائد کرے گا، جو پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہے۔ آج، ایران اپنی طرف سے پائپ لائن کی تعمیر مکمل کر چکا ہے اور پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ پاکستان ایک پیچیدہ صورت حال میں ہے۔ اگر پاکستان معاہدے پر عمل کرتا ہے تو اسے امریکی پابندیوں اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ایک سستا اور قابل اعتماد توانائی ذریعہ بھی میسر آ جائے گا، جو ملک کے توانائی بحران کو کم کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، اگر پاکستان معاہدے پر عمل نہیں کرتا تو ایران قانونی چارہ جوئی کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کر سکتا ہے، جس سے پہلے سے مشکلات میں گھری معیشت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔

پاکستان کے پاس چند ممکنہ حل موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرے اور چین، روس، ترکی، اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایک ایسا اقتصادی بلاک تشکیل دے جو امریکی دباؤ کو کم کرے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان مرحلہ وار تعمیر کا ماڈل اپنائے، یعنی چھوٹے حصوں میں پائپ لائن تعمیر کرے اور اسے دوسرے ذرائع سے فنانس کرے تاکہ امریکی دباؤ کا سامنا کم ہو۔ تیسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ نئے معاہدے کے تحت جرمانے کی شق میں نرمی کروانے یا مزید توسیع حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

پاکستان-ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کئی دہائیوں سے عالمی سیاست اور جغرافیائی حالات کا شکار رہا ہے۔ پیرس معاہدے کی شق کے مطابق، اگر پاکستان 2024 کے بعد بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو ایران قانونی چارہ جوئی کے ذریعے پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کر سکتا ہے، جو پہلے سے نازک معیشت کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہوگا۔ پاکستان کے لیے اب وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ملک اس معاہدے کو عملی جامہ پہنا دیتا ہے، تو وہ ایک سستا اور پائیدار توانائی ذریعہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو پاکستان کو نہ صرف بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ سفارتی سطح پر بھی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button