خلیج اردو
راولپنڈی:ایک سیاسی جماعت کے بہکاوے میں آکر من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے، قوم اور سرکاری افسروں سے معافی مانگتا ہوں،سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چھٹہ نے الیکشن کمیشن کی انکوائری کمیٹی کو بیان ریکارڈ کرادیا،کہا جو کیا اس پر نادم ہوں، خود کو قانون کے سامنے سرینڈر کرتا ہوں۔
سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی کمیٹی میں بیان ریکارڈ کرادیا،،،، عام انتخابات سے متعلق اپنے بیان پر انتہائی شرمندگی کا اظہار،،، تمام بیوروکریسی اور قوم سے معافی مانگ لی۔۔کہا الیکشن کمیشن حکام سمیت کبھی کسی نے دھاندلی کی کوئی ہدایت نہیں دی،،، کسی بھی آر او کو کسی کی حمایت یا انتخابی عمل میں مداخلت کا حکم نہیں دیا،، خود کو حکام کے آگے سرنڈر کرتے ہیں۔
سابق کمشنر راولپنڈی نےکہا کہ انھوں نے ایک سیاسی جماعت کے بہکانے پر بیان دیا جو صریحاً غیر ذمہ دارانہ عمل اور غلط بیانی تھی،،،ان کو 13 مارچ 2024 کو ریٹائر ہونا تھا اور وہ مستقبل میں مراعات کے چھوٹنے پر پریشان اور دباؤ میں تھے،،، ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے عہدے کا لالچ دے کر بہکایا۔
لیاقت علی چھٹہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ لالچ کے زیر اثر رہے،، اس کا آغاز تب سے ہوا جب وہ سیکریٹری پنجاب تھے،، اس وقت ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار سے قریبی تعلقات بنائے تاکہ مستقبل میں کام آسکیں،،، وہ عہدیدار 9 مئی واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے مفرور ہوگیا مگر اس سے رابطہ رہتا تھا اور وہ اس کی خفیہ مدد بھی کرتے تھے۔
لیاقت چٹھہ نے انکشاف کیا کہ انھوں نے 11 فروری کو خفیہ طور پر لاہور میں سیاسی جماعت کے رہنما سے ملاقات کی، ،،اس رہنمانے الیکشن 2024 کو دھاندلی زدہ ثابت کرنے کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے کہا ،،، اس کے صلے میں مجھ سے مستقبل میں اعلیٰ عہدے کا وعدہ کیا گیا،،،پہلے میں نے مشورہ دیا کہ استعفیٰ دے دوں جس میں دھاندلی کا الزام شامل ہو،،، لیکن استعفی کا زیادہ اثر نہ ہونے کے پیش نظر جذباتی اور ڈرامے سے بھرپور پریس کانفرنس کا فیصلہ کیا۔
سابق کمشنر راولپنڈی نے بیان دیا کہ اس سیاسی رہنما کے مطابق منصوبے کو مخصوص جماعت کی اعلیٰ قیادت کی حمایت حاصل تھی، ،،پریس کانفرنس کا دن سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق رکھا گیا تھا اور پریس کانفرنس کو ایک جماعت کے احتجاجی پروگرام کے ساتھ منسلک رکھا گیا،،لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا نام جان بوجھ کر شامل کیا گیا ،، مقصد عوام میں نفرت بھڑکانا تھا،،، بیان دینے کے بعد ان کا ضمیر ملامت کرتا رہا،،وہ خود کو حکام کے آگے سرنڈر کرتے ہیں،، ان کو اپنے بیان پر بہت شرمندگی ہے اور وہ قوم سے معافی مانگتے ہیں۔۔