خلیج اردو: آئی ایم ایف نے 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد پاکستان بھی آئی ایم ایف کو منانے کے لیے مشکل فیصلوں پر مجبور ہو گیا ہے۔اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین تاریخ کے سخت ترین مذاکرات 31 جنوری کو شروع ہوں گے۔
پاکستان کو 2230 ارب روپے کے اضافی اخراجات کنٹرول کرنا ہوں گے۔آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو اخراجات میں 2230 ارب روپے کے اضافی خرچے کنڑول کرنا ہوں گے۔بجلی اور گیس کی سبسڈی کو صرف غربا تک محدود کرنا ہو گا۔بھلی اور گیس کے ریٹس مرحلہ وار بڑھانے ہوں گے۔
اشرافیہ کے لیے ٹیکس کی چھوٹ محدود کرنا ہوگا۔
سرکاری اداروں میں کفایت شعاری پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوں گے۔سرکاری افسران کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ سرکاری اداروں میں بجلی اور گیس کے استعمال میں کفایت شعاری کرنا ہو گی۔انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ میں کمی کرنا ہوگی۔جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)وفد کی آمد سے قبل مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ بڑھ گیا۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جس کا فیصلہ آئی ایم ایف وفد کے آنے سے پہلے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کا امکان ہے۔حکام کے مطابق ابھی ورکنگ پیپر کو حتمی شکل نہیں دی گئی لیکن تیاری مکمل ہے،