پاکستانی خبریں

لاپتہ افراد کے بارے میں شواہد ہیں کہ وہ کالعدم تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں،ان کا کون پوچھے گا جو عسکری تنظیموں کے ہاتھوں مارے گئے

خلیج اردو
اسلام آباد: لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ سیاسی مقاصد کے لیے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اگر آپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں گے، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہرادارے کواپنی حدود میں رہنا چاہیے، پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ درخواست گزار خوشدل خان ملک نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔

 

جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص دھرنہ کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغواہ کیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ انکی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟

 

اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا، یہ سب ہماری پارٹی چھوڑ گئے اسکا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔ ہم اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غاٸب ہوگیا۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفی دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوٸی نہیں اٹھاتا، کیا آپ نے کوئی فہرست لگائی کون کب سے لاپتہ ہے؟ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گیے، ہم اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں گے، پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی یہ بہت کر لیا، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟

 

سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button