پاکستانی خبریں

صادق اور امین صرف حضو رﷺ ہیں، مسلمان یہ الفاظ اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا ، چیف جسٹس کے تا حیات نا اہلی کیس میں ریما رکس کہا الیکشن لڑنے کے لئے جو اہلیت بیان کی گئی ہےاگر اس زمانے میں قائد اعظم ہوتے وہ بھی نااہل ہو جاتے

خلیج اردو
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت 4 جنوری دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی.

 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نےاستفسارکیا اٹارنی جنرل، آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یاسپریم کورٹ کے فیصلے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جب کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلےکا دوبارہ جائزہ لینے کی استدعا بھی کی۔

 

اس دوران میربادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کی اور کہا میں نے 2018 میں درخواست دائرکی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا۔
چیف جسٹس کے پوچھنے پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کی۔

 

چیف جسٹس نے سوال کیا آرٹیکل 62 اور63 میں فرق کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جب کہ 63 نااہلی سے متعلق ہے، آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں دی ہے۔اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔

 

اس دوران جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانونی سازی سے بدلا جاسکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جارہے ہیں، کوشش ہوگی کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں اور مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کرسکتے ہیں۔

 

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور ساتھی ججز کے اہم ریمارکس سامنے آئے۔ کہا صادق اور امین صرف حضو رﷺ ہیں، کوئی مسلمان یہ الفاظ اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا، کیاکوئی شخص توبہ کرکے عالم یا حافظ بن جائے تو برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ الیکشن لڑنے کیلئے جو اہلیت بیان کی گئی ہےاگر اس زمانے میں قائد اعظم ہوتے وہ بھی نااہل ہو جاتے،

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضیاء الحق نے آئین توڑا کیا وہ اچھے کردار کے مالک تھے، آرٹیکل 63ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی پر نااہلی پانچ سال ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریما رکس میں کہا عدالت کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ کوئی 20سال بعد سدھر کر عالم بن جائے تو کیا اس کا کردار اچھا ہوگا؟

 

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کیس سے یہ تاثرنہ لیا جائےکہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کررہی ہے۔

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button