پنجاب اور کے پی انتخابات کی تاریخ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے وفاق، الیکشن کمیشن، نگران حکومتوں، گورنرز، اٹارنی جنرل سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف اور حکومت سے کل تک یقین دہانی طلب کرلی،، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا گرانے کیلئے نہیں ہوتیں،،، انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں. .
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کی. پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا،، الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں اور تاریخ ملتوی کرتے ہوئے 8 اکتوبر کو نئی تاریخ کا اعلان کردیا. استدعا ہے کہ . عدالت آئین اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرائے. جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد ہائیکورٹ کا کام ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے اہم سوال ہے کہ الیکشن کمشن صدر پاکستان کی دی گئی تاریخ کو ختم کر سکتا ہے اس معاملے پر عدالت کا کوئی فیصلہ بھی نہیں. ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں. بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے اس وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پر قبول کیا گیا اور معاملے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا. 1988میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی. سوال یہ ہے کہ کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے. الیکشن کمیشن صرف آئینی ادارہ ہے انتخابات شفاف اور پرامن ہونا چاہیے.
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد پایا گیا ہے ، پہلے موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا لیکن اب نئی تاریخ بھی دے دی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا یکم مارچ کے فیصلے پر تین ججز کے دستخط ہیں اور اب نیا بینچ بن گیا ہے. چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ اکثریتی فیصلے کو عدالتی حکم سمجھا جاتا ہے تاہم اختلافات رکھنے والے ججز اپنے دستخط اختلافی نوٹ پر الگ کرتے ہیں.