متحدہ عرب امارات

اسکولوں میں داخلے میں مشکلات، خصوصی تعلیمی ضروریات والے بچوں کے والدین پریشان ابوظہبی میں کئی اسکولوں کی جانب سے درخواستیں مسترد، شیڈو ٹیچر کی شرط مالی بوجھ بڑھانے لگی محکمہ تعلیم کی نئی پالیسی کے باوجود والدین کو مشکلات، مزید نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ

خلیج اردو
ابوظہبی: متحدہ عرب امارات میں خصوصی تعلیمی ضروریات رکھنے والے بچوں کے والدین کو اسکول داخلوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حالانکہ ابوظہبی کی نئی تعلیمی پالیسی تمام بچوں کے لیے تعلیمی مواقع کی فراہمی کی ضمانت دیتی ہے، مگر والدین کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی کئی اسکولوں کی جانب سے داخلے کی درخواستیں مسترد کیے جانے کا سامنا ہے۔

ایک والدہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو دس سے زائد اسکولوں نے اس وجہ سے مسترد کر دیا کہ اسے توجہ کی کمی اور زیادہ سرگرمی کا سامنا ہے، حالانکہ وہ غیرمعمولی لسانی صلاحیتوں اور مسئلے حل کرنے کی مہارت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی اور برطانوی نصاب کے اسکول اکثر والدین سے شیڈو ٹیچر کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو پہلے ہی مہنگی فیسوں کے باعث مالی بوجھ تلے دبے والدین کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔

اسی طرح، ایک اور والدہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو محض ہلکی نوعیت کے آٹزم کے باعث داخلہ نہیں دیا گیا اور انہیں ایک خاص مرکز میں داخلے کا مشورہ دیا گیا۔ تاہم، اگلے سال ایک اسکول نے ان کا داخلہ شیڈو ٹیچر کے ساتھ قبول کر لیا۔

کچھ والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کسی واضح سیکھنے کی مشکل کا شکار نہیں، مگر محض معمولی اسپیچ ڈیلے یا زیادہ متحرک رویے کی وجہ سے اسکول انہیں خصوصی ضرورتوں کے حامل بچوں میں شمار کر کے شیڈو ٹیچر کی شرط لگا دیتے ہیں۔

ابوظہبی محکمہ تعلیم و علم نے گزشتہ سال ایک نئی پالیسی متعارف کرائی تھی، جس کے تحت اسکول بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کسی بھی خصوصی ضروریات والے طالب علم کو مسترد نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی اسکول ایسا کرے، تو اسے محکمہ تعلیم کو مکمل شواہد فراہم کرنے ہوں گے، جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اسکول کا فیصلہ برقرار رکھا جائے یا اسے مذکورہ طالب علم کو داخلہ دینے کا پابند بنایا جائے۔

یہ پالیسی تمام نجی اور چارٹر اسکولوں کے لیے ستمبر دو ہزار چھببیس تک لازمی ہو جائے گی، جس میں شیڈو ٹیچرز کو انفرادی معاون کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ والدین کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کو اسکولوں میں خصوصی ضروریات والے طلبہ کے لیے مزید نشستیں مختص کرنی چاہئیں، تاکہ کسی بھی بچے کو تعلیم کے حق سے محروم نہ رکھا جا سکے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button