متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات میں غیر شادی شدہ غیر مسلم ماں کی بچے کی تحویل کے لیے جدوجہد، قانونی حقوق پر سوالات

متحدہ عرب امارات میں غیر شادی شدہ غیر مسلم ماں کی بچے کی تحویل کے لیے جدوجہد، قانونی حقوق پر سوالات

خلیج اردو
دبئی:جنوری 2024 میں متحدہ عرب امارات میں مقیم جین (فرضی نام) کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ وہ غیر مسلم ہے اور اپنے مسلم پارٹنر کے ساتھ فروری 2023 سے رہ رہی ہے۔ جین کو خدشہ ہے کہ اس کے بچے کا والد مستقبل میں اس کی مکمل تحویل کے لیے قانونی کارروائی کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق کے بارے میں فکرمند ہے۔

جین نے بتایا کہ اس کے پارٹنر کی مالی حیثیت مستحکم ہے، جب کہ وہ خود اپنی ملازمت پر انحصار کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے بیٹے کے مستقبل کو محفوظ بنا سکے کیونکہ اس کے والد نے نہ تو شادی کا وعدہ کیا اور نہ ہی کسی مستقل رشتے کی یقین دہانی کرائی۔ جین یہ جاننا چاہتی ہے کہ آیا وہ بغیر کسی طویل قانونی جدوجہد کے بچے کی مکمل تحویل حاصل کر سکتی ہے۔

اس کے بیٹے کی کفالت جین کے پاس ہے اور اس کے لیے دبئی کا رہائشی ویزا بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ جین نے بتایا کہ یہ عمل آسان نہیں تھا، لیکن ایک دوست کی مدد سے اسے بچے کے لیے پاسپورٹ اور پیدائش کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ اس دستاویز میں والدین کے نام اور مذہبی پس منظر درج ہیں، تاہم کسی کا خاندانی نام شامل نہیں کیا گیا۔

متحدہ عرب امارات میں حالیہ خاندانی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کے تحت غیر شادی شدہ والدین کے بچوں کے حقوق کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عدالتیں ہمیشہ بچے کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔

قانون کے مطابق، بچے کی بنیادی تحویل اکثر ماں کو دی جاتی ہے، کیونکہ وہ اس کی قدرتی سرپرست سمجھی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے پرسنل اسٹیٹس قانون کے آرٹیکل 146 کے تحت، تحویل کے حق میں ماں کو اولین حیثیت دی جاتی ہے، اس کے بعد دیگر قریبی خواتین رشتہ داروں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اگر کوئی موزوں خاتون سرپرست نہ ہو، تو مرد رشتہ داروں کو تحویل کا حق دیا جا سکتا ہے، تاہم یہ فیصلہ ہمیشہ بچے کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔

ماہرین قانون کے مطابق، بچے کی تحویل کا معاملہ محض ایک قانونی حق نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے، جس کے تحت بچے کو مستحکم اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق، اگر کوئی بچہ نکاح کے بغیر پیدا ہوا ہو، تو اس کے والدین کو قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے اسے تسلیم کرنا اور اس کے لیے ضروری دستاویزات حاصل کرنا لازمی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحویل کے کسی بھی تنازع میں عدالت درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھتی ہے:

– والدین کی مالی حیثیت
– اخلاقی کردار
– بچے کی مناسب دیکھ بھال کی صلاحیت
– مذہبی تعلیم
– گھر کے ماحول کا استحکام

نئے خاندانی قوانین کے تحت غیر مسلم ماؤں کو مسلم والدین کے بچوں کی پانچ سال کی عمر کے بعد بھی تحویل برقرار رکھنے کا حق دیا گیا ہے، جب کہ اس سے پہلے انہیں اکثر اس عمر کے بعد بچے کی تحویل سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ اگر بچہ کسی جسمانی یا ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو عدالت کی صوابدید پر ماں کو مزید عرصے کے لیے تحویل دی جا سکتی ہے۔

تحویل کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ماں یہ ثابت کر دے کہ اس نے بچے کی اچھی دیکھ بھال کی ہے، اس کی تعلیمی کارکردگی بہتر ہے اور اس کا طبی ریکارڈ بھی درست ہے، تو اسے تحویل برقرار رکھنے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، والد کو بھی حق حاصل ہے کہ اگر وہ محسوس کرے کہ بچہ ماں کے زیر سایہ رہ کر ضرورت سے زیادہ نرم طبیعت اختیار کر رہا ہے، تو وہ عدالت سے تحویل کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق، والد پر لازم ہے کہ وہ بچے کے اخراجات برداشت کرے، جس میں رہائش، خوراک، طبی سہولیات اور تعلیم شامل ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق، والد کو قدرتی سرپرست تصور کیا جاتا ہے، جب کہ ماں بچے کی روزمرہ کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

کچھ معاملات میں والدین کے درمیان مشترکہ تحویل کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے، تاہم اگر والدین کے درمیان مسلسل تنازع ہو تو عدالت زیادہ مستحکم ماحول فراہم کرنے والے فریق کو تحویل دینے کو ترجیح دیتی ہے۔

جین کو خدشہ ہے کہ اس کے پارٹنر کا بچے کی اسلامی شناخت پر زور مستقبل میں کسی قانونی تنازع کا سبب بن سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قوانین کے تحت، اگر والد مسلمان ہو تو بچہ بھی قانونی طور پر مسلم تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ والد کو مکمل تحویل حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ماں بچے کی اسلامی شناخت کا احترام کرے، مذہبی تعلیم میں مداخلت نہ کرے اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کرے تو اس کی تحویل برقرار رہ سکتی ہے۔

اکثر غیر شادی شدہ ماؤں کو یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ ان کے بچے کے والد اسے بیرون ملک لے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کا مشورہ ہے کہ مائیں درج ذیل حفاظتی اقدامات کریں:

– بچے کے سفری دستاویزات پر سفری پابندی کے لیے امیگریشن میں درخواست جمع کرائیں تاکہ والد یا کوئی اور فرد اسے ملک سے باہر نہ لے جا سکے۔
– بچے کے پاسپورٹ کو محفوظ رکھیں تاکہ اسے غیر قانونی طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔
– والد کے ساتھ ہونے والے تحویلی معاہدات کو قانونی طور پر دستاویزی شکل دیں تاکہ کسی بھی تنازع کی صورت میں قانونی حق ثابت کیا جا سکے۔
– اگر بچے کے اغوا کا خطرہ ہو تو عدالت سے باضابطہ تحفظ کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

قانونی ماہرین کا مشورہ ہے کہ غیر شادی شدہ مائیں اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں، مالی اخراجات اور تحویل سے متعلق تمام تفصیلات کا باقاعدہ ریکارڈ رکھیں اور اگر ممکن ہو تو عدالت میں باضابطہ تحویلی معاہدہ رجسٹر کرائیں تاکہ مستقبل میں کسی قانونی پیچیدگی سے محفوظ رہ سکیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button