
خکیج اردو
دبئی:دبئی کے رہائشی اسٹیفن میلیا نے نایاب بیماریوں سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے 50 کلومیٹر طویل دوڑ مکمل کی۔ یہ منفرد اقدام نایاب بیماریوں کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا، جو ہر سال 28 فروری (یا لیپ سال میں 29 فروری) کو منایا جاتا ہے۔
برطانوی شہری میلیا اس سے قبل بھی مختلف فلاحی کاموں میں حصہ لے چکے ہیں۔
نومبر 2024 میں، انہوں نے فلسطین کے لیے 560 کلومیٹر کا فاصلہ 7 دن میں طے کیا۔انہوں نے ایک 36 گھنٹے طویل ٹینس میچ بھی کھیلا تاکہ ایک بچی کے آپریشن کے لیے فنڈز جمع کیے جا سکیں۔
اس بار ان کا مقصد صرف آگاہی پھیلانا تھا۔ انہوں نے کہا زیادہ تر لوگ نایاب بیماریوں کے بارے میں نہیں جانتے، اسی لیے میں نے یہ دوڑ لگائی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس بارے میں معلومات حاصل کریں۔”
اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 300 ملین افراد نایاب بیماریوں کا شکار ہیں، جن میں 6000 سے زائد مختلف بیماریاں شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سے صرف 5 فیصد بیماریوں کا کوئی مؤثر علاج موجود ہے۔
ہائی ہوپس پیڈیاٹرک تھراپی سینٹر کے اشتراک سے منعقد کی گئی اس دوڑ کے حوالے سے میلیا کا کہنا تھا کہ وہ اگلے سال اس مہم کو مزید بڑے پیمانے پر منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
"اگر آپ شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو کچھ منفرد کرنا ہوگا، تاکہ زیادہ لوگ متوجہ ہوں اور اس پیغام کو آگے بڑھائیں۔”
2025 کو ‘ایئر آف کمیونٹی’ قرار دیے جانے کے پیش نظر میلیا مزید سرگرمیاں منعقد کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
نایاب بیماریوں میں مبتلا بچوں کے لیے دبئی میں علاج
دبئی کی رہائشی سمر زنانیری کے 18 ماہ کے بیٹے، تھاو کو نیونیٹل ایپلپسی نامی نایاب بیماری لاحق تھی، جس کی وجہ سے وہ مرگی کے دوروں کا شکار تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تشخیص اور درست علاج کی بدولت اب ان کا بیٹا پچھلے 4 ماہ سے مرگی اور دوا سے مکمل طور پر نجات پا چکا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں خصوصی افراد کے لیے حکومتی اقدامات
سمر زنانیری نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی خصوصی افراد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دبئی میں فراہم کردہ بہترین علاج اور سہولیات نے ان کے بچے کی زندگی بدل دی ہے۔
ہائی ہوپس پیڈیاٹرک تھراپی سینٹر کی جنرل مینیجر عائدہ برغوث نے کہا
"ہمارے سینٹر میں ایسے بچے آتے ہیں جو نایاب بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ان بیماریوں کو سمجھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور آگاہی پھیلائیں۔”
اس اقدام کا مقصد نہ صرف نایاب بیماریوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے بلکہ متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کو بہتر علاج اور مدد فراہم کرنا بھی ہے۔