
خلیج اردو
دبئی: 6 مارچ 2025 – متحدہ عرب امارات ان دس سرفہرست ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں جرمن ارب پتی اگلے 12 مہینوں میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ رجحان جرمنی میں سست معیشت، زیادہ ٹیکسوں اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے، جیسا کہ جمعرات کو جاری کردہ ایک نئے سروے میں انکشاف کیا گیا۔
یہ سروے سرمایہ کاری کے ذریعے امیگریشن فراہم کرنے والی کنسلٹنسی آرٹن کیپیٹل کی جانب سے کرایا گیا تھا، جس میں یہ پایا گیا کہ متحدہ عرب امارات ساتویں نمبر پر ہے، جہاں 11 فیصد جرمن ہائی نیٹ ورتھ افراد اگلے سال کے دوران منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجوہات ملک میں اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی، زیرو انکم ٹیکس اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں زیادہ منافع کی پیشکش ہیں۔
یہ تحقیق 18 سے 70 سال کی عمر کے 1,000 جرمن ارب پتیوں پر مشتمل تھی، جن کے پاس کم از کم ایک ملین یورو کی دولت تھی، جبکہ 18 فیصد شرکاء کے پاس پانچ ملین یورو سے زائد دولت موجود تھی۔
آرٹن کیپیٹل کے سی ای او آرمانڈ آرٹن نے کہا، "گزشتہ پانچ برسوں میں ہم نے جرمن سرمایہ کاروں کی جانب سے متحدہ عرب امارات میں بے پناہ دلچسپی دیکھی ہے۔ سروے میں شامل 11 فیصد افراد نے متحدہ عرب امارات کو دوسرا گھر یا مستقل رہائش کے لیے بہترین آپشن قرار دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی میں کاروبار کے لیے موجودہ جغرافیائی سیاسی حالات اور معیشت کی سست رفتاری بھی اس منتقلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کووڈ-19 کے بعد جرمن معیشت مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی، اور روس-یوکرین جنگ کے باعث توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے کاروبار کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
ہینلے اینڈ پارٹنرز کے مطابق، متحدہ عرب امارات عالمی سطح پر ہائی نیٹ ورتھ افراد کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ملک کے طور پر ابھرا ہے، اور 2024 میں یہاں 6,700 سے زیادہ نئے ارب پتی منتقل ہونے کی توقع ہے، جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ تعداد ہے۔
یہ ارب پتی زیادہ تر بھارت، افریقہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے آ رہے ہیں۔
آرمانڈ آرٹن نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، "دنیا میں جاری عدم استحکام کے باوجود، متحدہ عرب امارات کی استحکام اور سلامتی جرمن ارب پتیوں کو متوجہ کر رہی ہے۔ یورپ میں اس سطح کے امیر افراد کے لیے سلامتی ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہاں آپ اپنی قیمتی گاڑیاں آرام سے نہیں چلا سکتے، جبکہ متحدہ عرب امارات میں ایک محفوظ ماحول میں آزادی کے ساتھ اپنی دولت کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ امارات میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سرمایہ کاری کے شاندار مواقع فراہم کر رہا ہے، اور یہاں آنے والے زیادہ تر جرمن ارب پتی سب سے پہلے جائیداد خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
"متحدہ عرب امارات اب بھی ذاتی آمدنی پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کر رہا، جو جرمن ارب پتیوں کے لیے ایک بڑی کشش ہے۔ اس کے برعکس، سوئٹزرلینڈ، موناکو یا سنگاپور جیسے ممالک میں پیچیدہ ٹیکس نظام رائج ہے۔”
سروے کے مطابق، امارات کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ، نیوزی لینڈ، اسپین اور نیدرلینڈ وہ چھ ممالک ہیں جہاں جرمن ارب پتی جرمنی میں آئندہ انتخابات کے بعد منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔