
خلیج اردو
ابوظہبی: متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ عدالت نے ایک طویل عدالتی جنگ کے بعد بیلجئین شہری کو اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے کے ساتھ برابر وقت گزارنے کا حق دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس کے باوجود سامنے آیا کہ وہ ایک مصروف فلائٹ شیڈول کے ساتھ بڑی ایئرلائن میں شریک پائلٹ کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
یہ مقدمہ نومبر 2024 میں اس وقت شروع ہوا جب بیلجئین شہری اور اس کی اطالوی اہلیہ، جو طویل عرصے سے یو اے ای میں مقیم تھے، کے درمیان طلاق ہوئی۔ ان کا بیٹا، جو 2021 میں پیدا ہوا، اس طلاق کے بعد تحویل کے تنازعے کا مرکز بن گیا۔
پہلے مرحلے میں، دسمبر 2024 کو ابتدائی عدالت نے والد کی مصروف پیشہ ورانہ زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماں کو مکمل تحویل دے دی، اور والد کو ہر ماہ صرف دو بار، ایک ایک گھنٹے کی نگرانی میں ملاقات کی اجازت دی۔
تاہم والد نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور ابوظہبی کورٹ آف اپیل میں اپیل دائر کی، جو 12 فروری 2025 کو مسترد کر دی گئی۔ عدالت نے دوبارہ والد کی غیر موجودگی اور بے قاعدہ شیڈول کو بنیاد بناتے ہوئے ماں کی مکمل تحویل برقرار رکھی۔
قانونی مشیر ڈاکٹر حسن الہیاس نے بتایا کہ "ہم نے عدالت سے ماں سے تحویل واپس لینے کی بات نہیں کی بلکہ ہم چاہتے تھے کہ بچے کی نفسیاتی نشونما کے لیے دونوں والدین کو برابر کا حق دیا جائے۔”
معاملہ بالآخر یو اے ای کی اعلیٰ ترین عدالت، کورٹ آف کیسیشن تک پہنچا، جہاں 23 اپریل 2025 کو ایک اہم اور فیصلہ کن فیصلے میں ماں کو مکمل تحویل دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ والد ایک پائلٹ ہے اور اس کا شیڈول غیر معمولی ہے، اسے بچے کی پرورش سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔
عدالت نے حکم دیا کہ والد اور ماں دونوں باہمی اتفاق اور خیرسگالی سے بچے کی اسکول روٹین اور والد کے فلائنگ شیڈول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک لچکدار شیڈیول ترتیب دیں تاکہ بچہ دونوں والدین کے ساتھ بامعنی وقت گزار سکے۔
ڈاکٹر الہیاس کے مطابق "یہ فیصلہ نہ صرف والد کے لیے انصاف ہے بلکہ بچے کے بہترین مفاد میں ہے۔ والد کی بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش کو مسترد کرنا ناصرف غیرمنصفانہ تھا بلکہ بچے کی نفسیاتی نشونما کے لیے بھی نقصان دہ۔”
یہ فیصلہ یو اے ای کے فیملی لاء میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو والدین کی مشترکہ ذمہ داری کو تسلیم کرتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ ایک باپ کا پیار اور ذمہ داری کسی دفتر کے اوقات تک محدود نہیں ہوتی۔
اب یہ فیصلہ ایک والد کے لیے صرف قانونی جیت نہیں بلکہ ایک جذباتی کامیابی بھی ہے — سونے سے پہلے کہانیاں، ویک اینڈ پر وقت، اسکول چھوڑنے کی مسکراہٹیں اور وہ یادیں جو وہ کبھی کھو چکا تھا۔