
خلیج اردو
دبئی: ماہرین کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں متحدہ عرب امارات سب سے بڑے مستفید ممالک میں سے ایک بن سکتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 245 فیصد تک بھاری محصولات عائد کیے جانے کے بعد عالمی تجارتی راستوں میں تبدیلی متوقع ہے، جس سے متحدہ عرب امارات نہ صرف ایک اہم لاجسٹک اور ری-ایکسپورٹ مرکز بن کر ابھر سکتا ہے بلکہ اس کے مقامی صارفین اور صنعتوں کو بھی براہ راست فائدہ ہو سکتا ہے۔
‘سِکس فیکٹر کنسلٹنگ’ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، مالیاتی اور اقتصادی پس منظر رکھنے والے 100 اماراتی شہریوں میں سے 77 فیصد کا خیال ہے کہ یو اے ای اب عالمی تجارت میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر ابھرے گا۔ 82 فیصد کا ماننا ہے کہ دیگر ممالک کے لیے سامان کی ترسیل یو اے ای کے ذریعے بڑھے گی، جو ملک کے مضبوط انفراسٹرکچر پر اعتماد کا مظہر ہے۔
کاروباری رجحانات کے مطابق، امریکی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی براہ راست ترسیل کم ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد چینی کمپنیاں یو اے ای کی فری زونز میں اسمبلنگ یونٹس قائم کرنے پر غور کر رہی ہیں جہاں کارپوریٹ ٹیکس صفر فیصد ہے۔
اکاؤنٹنٹ ہری کشور رانکاوت کے مطابق، "چینی کمپنیاں اب یو اے ای کو ایک نیا اسمبلنگ اور برآمدی مرکز سمجھ رہی ہیں، کیونکہ یہاں سے امریکہ کو برآمدات پر صرف 10 فیصد ٹیرف ہے، جو چین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجارتی تبدیلی سے لاجسٹکس، پیداوار، گوداموں اور برآمدی صنعتوں کو بڑا فروغ ملے گا۔
دوسری جانب، امریکہ میں خریداری کی سست روی کی وجہ سے چینی گوداموں میں بڑی مقدار میں مال جمع ہو چکا ہے، جسے اب یو اے ای جیسے ممالک کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔
اس تبدیلی سے مقامی صارفین کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے، کیونکہ زائد چینی مال کی آمد قیمتوں میں ممکنہ کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ دبئی کے ڈریگن مارٹ میں موجود تاجر جیسن کے مطابق، "اگر سب نے ایک ساتھ مال منگوایا تو قیمتیں گر سکتی ہیں، لیکن یہ صارفین کے لیے ایک موقع بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر الیکٹرانکس، فیشن اور ہوم گڈز میں۔”
ایک اور تاجر وکٹر کا کہنا ہے، "چین کے شہروں یی وو اور گوانگژو میں ہزاروں جیکٹس، جوتے اور بیگز رکے ہوئے ہیں، اور جیسے ہی یہ مال یو اے ای آیا تو یہاں کی ریٹیل مارکیٹ میں قیمتوں میں بڑی کمی ممکن ہے۔”
اگرچہ 42 فیصد اماراتی صارفین قیمتوں میں کمی کی توقع کر رہے ہیں، لیکن 17 فیصد ممکنہ قلت سے خائف ہیں۔
ماہرین کے مطابق، یہ تجارتی تبدیلی نہ صرف عارضی فائدہ دے سکتی ہے بلکہ طویل المدتی بنیادوں پر یو اے ای کو عالمی سپلائی چین کا ایک نیا مرکز بنانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
چینی کمپنیوں کی جانب سے ویئرہاؤسنگ اور پیداواری یونٹس کے لیے بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں یو اے ای میں روزگار کے مواقع اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ متوقع ہے۔