متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات : نوکریوں کے اشتہار میں قومیت کی شرط ایک جرم ہے؟

خلیج اردو
25 اپریل 2021
دبئی : کسی بھی ملک میں موجود کمپنی کی جانب سے جب نوکری کا اشتہار دیا جاتا ہے تو وہ کچھ لازمی شرائط بھی ساتھ دیتے ہیں اور ان کے اہلیت کا معیار مختلف ہوتا ہے ۔ ایسے میں ایک صارف نے خلیج ٹائمز سے ایک سوال پوچھا ہے جس کا جواب ہماری قاریئین کیلئے مفید ہو سکتا ہے۔

سوال : میں کچھ مہینوں سے نوکری کی تلاش میں ہوں اور کئی وقت ایسے نوکریاں بھی ہوتیں ہیں جن کیلئے میں بالکل اہل ہوتا ہوں لیکن ان کی اہلیت کی شرط میں کچھ خاص قومیت شامل ہوتے ہیں اور میں ان کیلئے درخواست دینے کے اہل نہیں ہوتا ۔ کیا یہ سب قانونی ہے؟ کیا اس کے خلاف درخواست دی جا سکتی ہے؟

جواب : آپ کے سوالات سے ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ متحدہ عرب امارات کی سرزمین میں مقیم آجروں کے ساتھ روزگار کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ لہذا متحدہ عرب امارات میں روزگار کے تعلقات کو باقاعدہ کرنے کے حوالے سے 1980 کے وفاقی قانون نمبر 8 کی دفعات کا یہاں اطلاق ہوتا ہے۔

آپ کا سوالات آجروں کے ذریعہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں امتیازی سلوک سے وابستہ ہیں ۔ امتیازی سلوک اور نفرت کے خلاف فیڈرل فرمان 2 اور 2015 کے قانون کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ چونکہ یہ سرزمین متحدہ عرب امارات کے شہریوں کی ہے اور کسی بھی نوکری میں اگر ان کو ترجیح دی جاتی ہے تو یہ کوئی جرم نہیں ۔ یہ روزگار قانون کے آرٹیکل 9 کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نوکریاں متحدہ عرب امارات کے شہریوں کا حق ہے۔ تاہم اگر کسی بھی روزگار کے مواقع کیلئےمتحدہ عرب امارات کے شہریوں کی عدم دستیابی ہے تو پھر روزگار کی ترجیح عرب شہریوں اور اس کے بعد کسی بھی دوسری قومیت کو دی جاسکتی ہے۔

یہ روزگار قانون کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی ورکرز کی عدم فراہمی کی صورت میں پہلی ترجیح عرب قومیت اور اس کے بعد دیگر اقوام کے لوگوں کو موقع دیا جائے گا۔

تاہم اس کے علاوہ ملازمین کو ان کی جنس ، نسل ، مذہب ، ثقافت ، زبان یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

متحدہ عرب امارات میں کسی بھی طرح کی امتیازی سلوک کو فوجداری جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ متحدہ عرب امارات کے امتیازی قانون کے آرٹیکل 6 کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو کسی بھی طرح سے کسی بھی طرح سے کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اسے کسی مدت کیلئے قید کی سزا سنائی جائے گی۔ ایسے میں جرم کا ارتکاب کرنے پر 5000 سے ایک ملین درہم تک جرمانہ اور ایک سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button