خلیج اردو
شام :شام کے شمال مغربی حصے میں تباہ کن زلزلے کے چارروز بعد پہلا امدادی قافلہ جمعرات کو حزب اختلاف کے زیرقبضہ علاقے میں پہنچ گیا ہے۔
ترکیہ اور جنگ زدہ شام میں پیرکی صبح آنے والے 7.8 کی شدت کے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں اب تک 20 ہزار اموات سے زائد کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ترکیہ کے ساتھ واقع باب الہویٰ بارڈر کراسنگ پر موجود میڈیا افسر مازن علوش کے مطابق اقوام متحدہ کا پہلا امدادی قافلہ آج داخل ہوا ہے۔برطانوی میدیا کے ایک رپورٹر کے مطابق چھے ٹرکوں کو ترکیہ سے گزرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو خیمے ،ادویات اور حفظان صحت کی مصنوعات لےکر شام کی طرف جارہے تھے۔علوش نے کہایہ اقوام متحدہ کی طرف سے ابتدائی ردعمل سمجھاجا سکتا ہےاس پرمزید عمل کیا جانا چاہیے۔
ترکیہ کی جانب سے حزب مخالف کے زیر قبضہ شام میں باب الہویٰ کراسنگ ہی واحد سرحدی راستہ ہے جس کے ذریعے اقوام متحدہ کی امداد شامی حکومت کی افواج کے زیرقبضہ علاقوں سے گزرے بغیر شہریوں تک پہنچ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق اگرچہ یہ سرحدی گذرگاہ خود زلزلے سے متاثر نہیں ہوئی تھی ،لیکن اس کی طرف جانے والی سڑک کو نقصان پہنچا ہے،جس سے عارضی طور پرامدادی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔
ادھرجنیوا میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئرپیڈرسن نے جمعرات کے روزکہا کہ شام میں ہنگامی ردعمل کو سیاسی رنگ نہیں دیا جاناچاہیے کیونکہ یہ خطے میں ایک صدی میں آنے والے تباہ کن زلزلوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کویقین دلایا گیا ہے کہ ہم آج پہلی امدادی کھیپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
متحدہ عرب امارات، روس، ایران اور دیگر ممالک سے امداد لے جانے والے طیارے پیر سے دمشق، حلب اورللذاقیہ میں شامی حکومت کے زیرقبضہ ہوائی اڈوں پراتر رہے ہیں۔
ترکیہ اور شام میں امدادی کارکنان اب بھی ملبے تلے دبے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔شام میں حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں میں کام کرنے والے امدادی رضاکارگروپ سفید ہیلمٹس نے ’’وقت کے خلاف دوڑ‘‘میں بین الاقوامی مدد کی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ کے شام میں ریذیڈنٹ رابطہ کارالمصطفیٰ بن الملیح نے بدھ کے روزبتایا کہ گذشتہ قریباً تین ہفتوں میں باغیوں کے زیرِقبضہ شمال مغربی علاقوں میں انسانی امداد کی کوئی نئی ترسیل نہیں کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے پاس اس علاقے میں کچھ ذخیرہ موجود ہے اور یہ ایک ہفتے تک ایک لاکھ افراد کو کھانا کھلانے کے لیے کافی ہے۔دمشق سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کے زیر قبضہ صوبوں میں بڑی تباہی ہوئی ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شمال مغرب میں تباہی بہت زیادہ ہے اور ہمیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے وہاں جانے کی ضرورت ہے۔