عالمی خبریں

امریکا جو کرنا چاہتا ہے کرے، ہم مذاکرات نہیں کریں گے،ایرانی صدر کا امریکا سے مذاکرات سے انکار

خلیج اردو
تہران: ایران کے صدر نے امریکا کے ساتھ مذاکرات سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جو کرنا چاہتا ہے کرے، ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔

ایرانی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا کی جانب سے ہمیں احکامات دینا اور دھمکیاں دینا قابل قبول نہیں۔ میں امریکا سے کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں کروں گا اور ایسی بات چیت کو تسلیم نہیں کریں گے جو دھمکیوں کے تحت کی جائے۔

ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے، اور ایرانی صدر کے اس بیان سے دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

اس سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ہفتے کے روز کہا کہ تہران کو مذاکرات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیان ایک دن بعد آیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ کرنے کے لیے آیت اللہ خامنہ ای کو خط بھیجا ہے۔

ایران نے ٹرمپ کے خط موصول ہونے کی تردید کی ہے، تاہم اس دعوے کے جواب میں ایرانی حکام نے کئی سخت بیانات جاری کیے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران بیرونی دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا اور ملک اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور ایران امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے یکطرفہ معاہدے کو مسترد کر چکا ہے۔

دوسری طرف پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز عراق کو ایران سے بجلی خریدنے کی اجازت دینے والی پابندیوں سے استثنیٰ ختم کر دی۔ یہ اقدام ایران پر دباؤ بڑھانے کی ٹرمپ انتظامیہ کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ” مہم کا حصہ تھا، جس کا مقصد خطے میں تہران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور اس کے جوہری عزائم کو روکنا تھا۔

اس سے قبل یہ استثنیٰ عراق کو امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے توانائی درآمد کرنے کی اجازت دیتا تھا، کیونکہ عراق اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے ایرانی بجلی پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں عراق کو توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ اقدام امریکہ، ایران اور عراق کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button