خلیج اردو
مقبوضہ بیت المقدس:مقبوضہ مشرقی یروشلم میںسب سے طویل عرصے تک فلسطینی قیدی کریم یونس کو 40 سال اسرائیلی جیلوں میں قید کاٹنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق قابض اسرائیلی حکومت نے 66 سالہ یونس کو تل ابیب کے شمال میں واقع حدریم جیل سے رہا کیا۔
انہیں 1983 میں گرفتار کیا گیا تھا ان پر مقبوضہ شام کی گولان کی پہاڑیوں میں ایک اسرائیلی فوجی کے قتل کا الزام تھا۔
یونس کا تعلق اسرائیل کے اندر فلسطینی گاؤں آرا سے ہے، جہاں جمعرات کو رشتہ داروں اور دوستوں کے ایک بڑے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔
کریم یونس نے اپنی رہائی سے متعلق بتایا کہ انہیں اسرائیلی پولیس نے مختلف گاڑیوں کے درمیان منتقل کیا گیا اور تل ابیب کے شمال میں واقع قصبے میں چھوڑ دیا گیا جہاں سے وہ ایک راہگیر کی مدد سے اپنے خاندان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آرا گاؤں پہنچتے ہی ان کے خاندان سمیت باقی لوگوں بھی ان کے استقبال کے لیے ان کے گاؤں کی گلیوں میں جمع ہو گئے۔
یونس نے کہا کہ "وہ فلسطینی جدوجہد میں ایک اہم شخصیت تھے۔ ” اسے گرفتار کر کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی اکثریت کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے سے ہےلیکن یونس اسرائیل کا فلسطینی شہری ہے۔
یونس نے بتایا کہ صبح سویرے افسران ان کے سیل پر آئے اور انہیں بتایا کہ انہیں رہا کیا جانا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں غسل کرنا اور تیار ہونا چاہتا تھا، لیکن انہوں نے مجھے روک دیا۔یونس کے مطابق بالآخر ایک رشتہ دار نے راستے سے اٹھا کرآبائی شہر آرا لے آیا۔
تاہم اسرائیلی حکام نے ان رپورٹوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
رہائی کے بعد یونس نے اپنی والدہ کی قبر پر حاضری دی جو آٹھ ماہ قبل انتقال کر گئی تھیں، ان کی قبر پر جذباتی تصاویر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے شیئر کی گئیں۔
رہائی کے بعد عرب میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کریم یونس نے کہا کہ مجھے آزاد کردیا گیا لیکن میں اپنے پیچھے دیگر قیدیوں کو چھوڑ آیا ہوں، مجھے امید ہےکہ ہم جلد ان تمام قیدیوں کی رہائی کی بھی خوشی منائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت تقریباً4700فلسطینی قیدی ہیں، جن میں 150 بچے اور 835 افراد شامل ہیں جنہیں بغیر کسی مقدمے یا الزام کے قید میں رکھا گیا ہے۔