عالمی خبریں

امریکی ڈرون حملے: پاکستان میں خودمختاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

خلیج اردو
نیویارک:
نائن الیون کے بعد سے امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان، یمن، صومالیہ، لیبیا اور افغانستان میں ڈرون حملے کیے۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملے انتہائی درستگی سے کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

2004 سے 2018 کے دوران پاکستان میں 439 امریکی ڈرون حملوں میں تقریباً 4026 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 969 شہری اور 207 بچے شامل تھے۔ یہ حملے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تھے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی پامالی کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کے مطابق کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی علاقائی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں، جس کی یہ ڈرون کارروائیاں واضح خلاف ورزی ہیں۔ تاہم، امریکہ نے ان حملوں کو اپنے دفاع کے حق کے تحت جائز قرار دیا، لیکن یہ دلیل بین الاقوامی قوانین کے سخت معیارات پر پوری نہیں اترتی۔

پاکستان کے لیے قانونی چارہ جوئی میں مشکلات ہیں کیونکہ امریکہ اور پاکستان دونوں نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) اور روم اسٹیٹیوٹ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ مزید یہ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی مستقل رکنیت کے باعث اس کے خلاف کوئی قرارداد منظور ہونا مشکل ہے۔

اس کے باوجود متاثرین کے لیے انصاف کے کچھ راستے موجود ہیں۔ 2013 میں پشاور ہائی کورٹ نے "النو ر خان کیس” میں امریکی ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اس طرح کے عدالتی فیصلے متاثرین کو حکومتی سطح پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔

مزید برآں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے تعاون سے بین الاقوامی سطح پر مقدمات کو اجاگر کرنا بھی ایک مؤثر طریقہ ہے۔ 2015 میں یمن کے احمد سالم بن علی جابر کیس نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف عالمی توجہ حاصل کی، اگرچہ یہ مقدمہ امریکی عدالتوں میں خارج کر دیا گیا۔

ماضی میں امریکہ نے بعض کیسز میں متاثرین کو معاوضہ بھی دیا ہے، جیسا کہ 2015 میں پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی اور اطالوی مغویوں کے اہلِ خانہ کو دیا گیا۔ اسی طرح 1988 میں "لاکربی بم دھماکے” میں لیبیا نے 2.7 بلین ڈالر متاثرین کو ادا کیے۔ یہ نظیریں ثابت کرتی ہیں کہ ریاستی سطح پر جوابدہی ممکن ہے۔

امریکی ڈرون حملوں کے متاثرین کے لیے انصاف کا حصول مشکل ضرور ہے، لیکن قومی عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے، انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعاون کرنے اور سفارتی ذرائع استعمال کرنے سے انصاف اور معاوضے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف ماضی کی ناانصافیوں کا ازالہ کریں گے بلکہ مستقبل میں ایسے غیر قانونی حملوں کو روکنے میں بھی معاون ہوں گے۔

Source: diplomatmagazine

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button