
خلیج اردو
لاہور:لاہور ہائیکورٹ نے 19 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے مقدمے میں نامزد ملزم کو چھ سال بعد بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دیگر تمام شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر ملزم کو جرم سے منسلک کرنا کافی نہیں ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی این اے رپورٹ کی قانونی حیثیت کو بھی پرکھا جانا ضروری ہے۔ اگر سیمپل محفوظ طریقے سے منتقل نہ کیے گئے ہوں تو ان کی بنیاد پر بننے والی رپورٹ پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس طارق ندیم نے واضح کیا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو صرف ماہرین کی رائے (ایکسپرٹ ایویڈنس) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اسے واحد اور حتمی ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔