
خلیج اردو
اسلام آباد: آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت جج تعیناتی اور اوپن ٹرائل کرنے کی اپیل پر ایف آئی اے ، وزارت قانون و دیگر فریقین کو نوٹسز جاری ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر تک جواب بھی طلب کر لیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل میں سزا سنا دی جاتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہونگے،یہ سب چیزیں آپ کو دیکھنا ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کی۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم وفاقی کابینہ کے فیصلے کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہاں آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت کا جج تعینات ہوا ؟ وفاقی کابینہ کی منظوری میں کہیں نہیں لکھا ہوا یہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت کی جج کی تعیناتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے کابینہ سے منظوری کی سمری عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون کی سمری کے پیراگراف 6 کی کلاز تین میں لکھا ہوا ، کابینہ کی منظوری کے بعد تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری ہوا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جج کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس سے مشاورت ہونی چاہئے،جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ہم رجسٹرار آفس سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا چیف جسٹس سے مشاورت کا پراسیس ہوا ہے یا نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے حوالے سے سوال بھی عدالت کے سامنے ہے ،میڈیا ، عام لوگ ، ملزمان کی فیملی کو ٹرائل کے دوران اجازت ہونی چاہیے ، نو بائی نو کے کمرہ میں جیل ٹرائل چل رہا ہے ، جیل میں چھوٹے سے کمرے میں کسی کو رسائی نہیں ہوتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جیل ٹرائل اور اوپن ٹرائل الگ الگ ہیں ،جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ذہن میں رکھیں ہم 2023 میں ہیں شفافیت اوپن پالیسی کے دور میں ہیں ، اگر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل میں سزا سنا دی جاتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہونگے،یہ سب چیزیں آپ کو دیکھنا ہیں۔
عدالت نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت جج تعیناتی اور اوپن ٹرائل کرنے کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔