خلیج اردو: دبئی کے ایک نجی اسپتال میں نرس کے طور پرکام کرنے والی 40 سالہ جیشا کورین اپنے ساتھی مسلم ملازمین کے ساتھ رمضان المبارک میں روزے رکھ رہی ہیں۔
کورین مذہباًعیسائی ہیں۔ وہ دبئی کے علاقے قیس میں واقع ایسٹراسپتال میں شعبہ بیرونی مریضاں میں کام کرتی ہیں اورگذشتہ چھے سال سے مسلسل رمضان المبارک میں روزے رکھ رہی ہیں۔وہ سنہ 2012 میں دبئی میں روزگار کے سلسلے میں منتقل ہوئی تھیں۔وہ سب سے پہلے اپنی ایک سینیرسے متاثر ہوئی تھیں جوغیرمسلم ہونے کے باوجود رمضان میں روزے رکھتی تھیں۔
انھوں نے اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے کہا:’’متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک ہے جو لوگوں سے احترام اور وقار کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہے۔اس لیے میں نے سوچا کہ جب میں اس ملک میں رہوں گی تو مجھے اس کی روایت اور ثقافت کے مطابق چلنا چاہیے‘‘۔
کورین نے کہا کہ وہ بھی اپنے ساتھیوں کا احترام کرتے ہوئے روزے رکھتی ہیں۔وہ روزہ اس لیے رکھتی ہیں کیوں کہ وہ اس عقیدے کے نظام اوراس ملک کی ثقافت کا احترام کرنا چاہتی ہوں جس میں وہ رہتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ’’میرے بہت سے ساتھی مسلمان ہیں اور سبھی روزہ رکھ رہے ہیں۔شعبہ بیرونی مریضاں میں نرس ہونے کے ناتے، ہم ہمیشہ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بھاگ دوڑکرتے رہتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے ہم تھک جاتے ہیں۔ کھانا اور پانی کے بغیر پورا دن کام کرنا مشکل ہے لیکن مجھے اس وقت کھانا اور پانی پینا اچھا نہیں لگتاجب میرے بہت سے ساتھی روزے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ لہٰذا میں ان کے ساتھ روزہ رکھنے میں شامل ہوتی ہوں اور افطار کا وقت آنے پر ہی افطار کرتی ہوں‘‘۔
کورین کا کہنا تھا کہ ’’رمضان میں روزہ رکھنے سے نہ صرف ان کی صحت کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس سے انسانوں کو کسی چیز میں مشغول ہونے کے رجحان میں بھی مدد ملتی ہے۔روزہ آپ کی ذہنی طاقت کو بڑھاتا ہے اور آپ کے خیالات کو صاف کرتا ہے. مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے دماغ کوصاف کرتا ہے اور زندگی میں مثبت تبدیلی لاتا ہے‘‘۔
کورین کاکہنا ہےکہ ’’رمضان ایک بابرکت موقع ہے جہاں خاندان اور دوست اکٹھے ہوتے ہیں اوراچھی روحوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔میرے بہت سے مسلمان ساتھیوں نے مجھے افطار اور سحری کے اجتماعات کے لیے اپنے گھروں میں مدعو کیا ہے۔ ان کے اہل خانہ کے ساتھ رہنا اور ان اجتماعات کا حصہ بننا اچھا لگتاہے۔اس سے ہمارے درمیان ایک طرح کا اتحاد پیدا ہوتاہے‘‘۔
رمضان کے پہلے دن کورین نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسپتال میں روزہ افطار کیا تھا کیونکہ وہ شام کی شفٹ میں کام کر رہی تھیں۔وہ اس مقدس مہینے میں روزہ رکھنے والی واحد غیر مسلم نہیں ہیں۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ کیئر آپریشن پروفیشنل، 30 سالہ پرنو پرسنا کمار پانچ سال سے زیادہ عرصے سے رمضان میں روزے رکھ رہے ہیں۔
ہندو مذہب کے پیروکار پرسنا کمار کا کہنا ہے کہ ’’رمضان ایک ایسا موقع ہے جو لوگوں کو ان کی ذات، مذہب یا رنگ سے قطع نظر اکٹھا کرتا ہے۔ یہ لوگوں کی زندگیوں میں امن اور اثبات لاتا ہے‘‘۔
انھوں نے رمضان میں اپنے تجربے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ’’میں گذشتہ کئی سال سے روزے رکھ رہا ہوں۔ میں ذاتی طور پرمحسوس کرتا ہوں کہ رمضان کے دوران میں روزہ مجھے پُرسکون بناتا اور امن وراحت عطا کرتاہے۔ ذاتی طور پر،یہ بھی ایک ورزش ہے جو ہمیں اپنے دماغ کو کنٹرول کرنے اور خواہشات سے لڑنے میں مدددیتی ہے۔یہ ہمارے جسم اور دماغ کوفرحت اورتازگی بخشتا ہے اور رمضان کے اختتام تک ہمیں ایک نئے انسان میں تبدیل کردیتا ہے‘‘۔
انھوں نے رمضان میں روزہ رکھنے کی ترغیب اپنے مسلمان دوستوں سے حاصل کی تھی۔وہ بتاتے ہیں:’’جب میں نے پہلی بار روزہ رکھنا شروع کیا تھا، تو میں نے یہ کام صرف اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے کیا تھا۔ لیکن جب مجھے رمضان میں روزے رکھنے کے فوائد کا احساس ہوا تو مجھے کوئی چیز روک نہیں سکتی تھی۔اس لیے آج کل میں علی الصباح سے شام تک روزہ رکھتا ہوں اوراپنے دوستوں کے ساتھ افطار کرتا ہوں‘‘۔