
خلیج اردو
دبئی:رابرٹ والٹرز نامی معروف بھرتی کمپنی کی حالیہ تحقیق کے مطابق متحدہ عرب امارات میں جنریشن زی کے 59 فیصد پیشہ ور افراد کال کے بجائے ای میل اور فوری پیغام رسانی کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ نصف سے زائد افراد کاروباری کالز کرنے میں ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔
ماہرین اس رجحان کو ’فون فوبیا‘ یا ’فون انزائٹی‘ قرار دے رہے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ نوجوان نسل روایتی آواز پر مبنی رابطے کے بجائے ایسے ذرائع کو پسند کر رہی ہے جن میں جواب دینے میں وقت ہو اور کنٹرول حاصل رہے۔
26 سالہ مریم اے کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی یا پیشہ ورانہ کسی بھی نوعیت کی کال کو ناپسند کرتی ہیں: "جب کوئی فون کرتا ہے تو دل تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ کیا بات کرنے والے ہیں۔”
23 سالہ مارکیٹنگ پروفیشنل احمد امین کا کہنا تھا، "فون کالز اکثر مجھے بری خبر کی پیشگی اطلاع محسوس ہوتی ہیں، جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو۔” ان کے مطابق تحریری پیغام میں فرد کو سوچنے اور جواب دینے کا وقت ملتا ہے جو ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے۔
کلینکل ماہر نفسیات ڈاکٹر سارہ احمد نے کہا کہ فون کالز کے غیر متوقع ہونے کی وجہ سے یہ افراد میں اضطراب پیدا کرتی ہیں۔ "ٹیکسٹنگ انسان کو جواب پر قابو اور وقت فراہم کرتی ہے، جبکہ فون کال فوری ردعمل کا مطالبہ کرتی ہے جو کچھ افراد کے لیے بہت بھاری ثابت ہوتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ فون فوبیا سے متاثرہ افراد کال لینے سے گریز کرتے ہیں، جواب میں تاخیر کرتے ہیں اور گفتگو کے بعد اس پر بار بار سوچتے ہیں، جبکہ بعض اوقات یہ اضطراب جسمانی علامات جیسے دل کی تیز دھڑکن، متلی، کپکپاہٹ اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
سماجی ماہر ڈاکٹر امینہ الحامدی کے مطابق یہ رجحان ثقافتی تبدیلیوں کا عکاس ہے۔ "جنریشن زی ایک ڈیجیٹل ماحول میں پروان چڑھی ہے جہاں بات چیت عموماً غیر متزامن (asynchronous) ہوتی ہے۔” ان کے مطابق سوشل میڈیا اور فوری پیغام رسانی کے اثرات نے نوجوانوں کو مختصر اور واضح پیغامات کے عادی بنا دیا ہے جس کے مقابلے میں فون کالز بوجھ محسوس ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر امینہ نے اس تبدیلی کو محض ترجیح نہیں بلکہ ایک ممکنہ صدماتی ردعمل بھی قرار دیا جس کے ذریعے نوجوان نسل اپنی پریشانی سے نمٹنے اور روایتی سماجی اصولوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔