متحدہ عرب امارات

اماراتی سفارتکار نے اسرائیلی وزیر کے متنازع بیان کی تردید کر دی

خلیج اردو
ابوظبی: اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے منسوب متنازع بیان پر متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ سفارتکار ڈاکٹر انور قرقاش نے اپنی ابتدائی تنقید واپس لے لی ہے، جس میں انہوں نے اسرائیلی وزیر پر خلیجی ممالک سے ایران کے خلاف جنگ کیلئے فنڈز طلب کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں قرقاش نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان غلط طور پر منسوب کیا گیا تھا۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں یہ تنازع اس وقت ابھرا جب امریکہ نے اتوار کو ایران کے تین جوہری مراکز پر بمباری کی۔

ڈاکٹر انور قرقاش، جو صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے سفارتی مشیر ہیں، نے ابتدائی طور پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ سموٹریچ نے خلیجی ممالک، جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے اسرائیل کی جنگ کے لیے مالی معاونت کی اپیل کی ہے۔ قرقاش نے اسے "شدید اخلاقی دیوالیہ پن” قرار دیا تھا۔

تاہم بعد ازاں انہوں نے مذکورہ پوسٹ حذف کر دی اور کہا کہ تصدیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ بیان سموٹریچ کا نہیں تھا۔ قرقاش نے وضاحت کی:
"مجھے قابل بھروسہ ذرائع سے تصدیق موصول ہوئی ہے اور انٹرویو کے متن کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ اسرائیلی وزیر خزانہ سے منسوب بیان غلط ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ اسی لیے میں نے پچھلا ٹویٹ حذف کر دیا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ "امارات علاقائی تنازعات کو عقل و حکمت سے اور سفارتی ذرائع سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔”

ادھر، خلیجی ممالک نے اتوار کو ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد شدید تشویش کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ خطہ سنگین عدم استحکام کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر قرقاش نے یہ بھی کہا کہ صدر شیخ محمد بن زاید کی قیادت میں امارات علاقائی استحکام کے لیے عالمی اور خلیجی رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں ہے، تاکہ کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔

تاہم قرقاش نے متنبہ کیا کہ یہ جنگ خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے:
"اسرائیل کا حملہ اور جاری جنگ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے جس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر دشمنی ختم کر کے سیاسی مکالمے کی طرف لوٹا جائے، جیسا کہ تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے۔”

امریکی جریدے "وال اسٹریٹ جرنل” کے مطابق اسرائیل کو ایران کے خلاف جنگ روزانہ کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ سب سے بڑی لاگت انٹرسیپٹر میزائلز کی ہے جو ایرانی حملوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جن کی یومیہ قیمت 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ جنگی طیاروں، اسلحہ، اور انفراسٹرکچر کی بحالی پر بھی کروڑوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، اور اب تک نقصان کا تخمینہ کم از کم 400 ملین ڈالر لگایا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button