متحدہ عرب امارات

سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال عدم اطمینان اور حسد کا باعث بنتا ہے،ماہرین نفسیات نے خوش رہنے کیلئے تجاویز دیں ہیں

خلیج اردو
دبئی: متحدہ عرب امارات میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ حقیقی دنیا میں انسان کی میل جول اور سرگرمیاں تناؤ کو کم کرتے ہیں اور لوگوں کو خوش، صحت مند اور زیادہ مثبت محسوس کرتے ہیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا کے مختلف اپلیکیشنز جسے فیس بک، انسٹاگرام یا واٹس ایپ پر سوشل میڈیا پر گھنٹوں گزارنا ناکامیابی اور ناکافی ہونے کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال عدم اطمینان اور حسد کے احساس کا باعث بنتا ہے کیونکہ جو لوگ اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے براؤز کرنے میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گویا ان کی زندگی یا ظاہری شکل سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگی سے موافق نہیں یا کم تر ہے۔

تھمبے اسپتال عجمان اور تھمبے یونیورسٹی اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر عدنان احمدیزاد کا کہنا ہے کہ چونکہ انسان سماجی مخلوق ہے جسے زندگی میں پھلنے پھولنے کے لیے دوسروں کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے لوگوں کے روابط کی مضبوطی ان کی ذہنی صحت اور خوشی پر بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔

ڈاکٹر احمدی زاد کہتے ہیں کہ دوسروں سے سماجی طور پر جڑے رہنا تناؤ، اضطراب اور افسردگی کو کم اور خود اعتمادی کو بڑھا سکتا ہے۔ یہ سکون اور خوشی فراہم کر کے تنہائی کو روک سکتا ہے یہاں تک کہ آپ کی عمر میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ ڈیجیٹل گورنمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے رہائشی روزانہ ساڑھے آٹھ گھنٹے سے زیادہ انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں جو کہ عالمی اوسط سے تقریباً دو گھنٹے زیادہ ہے جبکہ تقریباً چار گھنٹے پرسنل کمپیوٹرز پر اور 4.35 گھنٹے اسمارٹ فونز پر صرف ہوتے ہیں۔

عالمی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال نیند پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سےدماغی صحت کو آن لائن سرگرمیوں کے اثرات سے بچانے کے لیے تجاویز: درج ذیل ہیں۔

سوشل میڈیا سے وقفہ لیں، اسکرین ٹائم کی نگرانی کریں،کام کی زندگی کی حدود طے کریں،سونے کے کمرے میں الیکٹرانک آلات نہ رکھیں،خود کی دیکھ بھال کو ترجیح دیں۔
بلمشافہ تعلقات کو پروان چڑھائیں اور ویک اینڈ پر دوستوں اور خاندان والوں سے ملاقات کریں۔

ایرانی ماہر نفسیات نے مزید کہا کہ بالغوں اور بچوں دونوں پر زیادہ اسکرین ٹائم کے مضر اثرات میں اضافے کے ثبوت موجود ہیں۔ ڈاکٹر احمدی زاد نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بنائی گئی ہے، درحقیقت لوگوں کو زیادہ تنہائی اور الگ تھلگ محسوس کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سوشل میڈیا کی مصروفیت کو حقیقی دنیا کے انسانی تعاملات کے لیے تبدیل کر دیا جائے تو ذہنی صحت کے مسائل جیسے کہ پریشانی اور ڈپریشن میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی دنیا کے انسانی رابطے ایسے ہارمونز کو متحرک کرتے ہیں جو تناؤ کو کم کرتے ہیں اور لوگوں کو خوش، صحت مند اور زیادپازیٹیو محسوس کرتے ہیں۔”

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button