خلیج ارد
دبئی : متحدہ عرب امارات کے رہائشیوں نے جعلی ایس ایم ایس پیغامات یا سکیمرز کی جانب سے ای میلز موصول ہونے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں ان سے پارسل وصول کرنے کے بدلے4 درہم ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔
جعلساز لوگوں کو جال میں پھنسانے کے لیے معروف کورئیر کمپنیوں کے نام اور لوگو استعمال کر رہے ہیں۔ مختلف امارات میں پولیس رپورٹس کے مطابق بہت سے لوگ اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں جہاں فراڈیو نے ان کے بینک اکاؤنٹس سے رقم نکالی ہے۔
شہری فہد راشد العمیری کو یہی جعلی پیغام بار بار موصول ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کا مقابلہ صرف پولیس کی جانب سے پھیلائی جانے والی آگاہی مہموں کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ کمیونٹی کے افراد کو ایسے پیغامات کا جواب دینے کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے جن کا مقصد بینک ڈیٹا کو ضبط کرنا ہے۔
دھوکہ باز افراد قائم شدہ کورئیر کمپنیوں کی نقالی کرتے ہیں۔ الامیری نے کہا کہ متاثرین نادانستہ طور پر ان کے متن کا جواب دے سکتے ہیں۔ چونکہ ان سے صرف ایک چھوٹی سی رقم ادا کرنے کو کہا جاتا ہے، لوگ ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔
ایک اور رہائشی محمد ذاکر کا کہنا ہے کہ لوگ جعلی پیغام سے منسلک لنک پر کلک کرکے ادائیگی کا عمل کر سکتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کا بینک ڈیٹا چوری ہو گیا ہے۔ جعل سازی کا یہ طریقہ اس خیال پر منحصر ہے کہ متاثرہ شخص سوچے گا کہ خاندان کے کسی فرد نے انلائن خریداری کی درخواست کی ہے اور جعلی کورئیر کمپنی کو ادائیگی کرنی ہے۔
ذاکر نے اس بات پر زور دیا کہ افراد کو ان پیغامات میں موجود معلومات کی درستگی کی چھان بین کرنی چاہیے اور جعلی لنکس پر کلک کرنے سے پہلے اس کی صداقت کو یقینی بنانا چاہیے۔
عائشہ الشمسی نے کہا کہ اس کی خالہ دھوکہ دہی کا شکار ہوئیں ہیں اور ان کے بینک اکاؤنٹ سے 10،000 درہم نکال لیے گئے۔ اس نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ الشمسی نے کہا کہ آگاہی مہمات الیکٹرانک فراڈ کرنے والے گینگز کے خطرے سے نمٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کے بعد سے صارفین اسٹورز اور مالز میں جانے کے بجائے آن لائن خریداری کر رہے ہیں۔ دبئی پولیس کے سائبر سیکیورٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔
زیادہ تر دھوکہ باز معروف برینڈز یا کمپنیوں کی نقالی کرتے ہوئے ای میلز اور متن بھیجتے ہیں۔ کورئیر کے ذریعے دھوکہ دہی کی صورت میں میسج میں موجود لنک ایک جعلی ویب پیج کی طرف لے جاتا ہے جو کسی آفیشل کمپنی کی ویب سائٹ کی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس کے بعد صارفین کو دھوکہ دہی پر مبنی ڈیلیوری فیس ادا کرنے کے لیے خفیہ معلومات جیسے بینک کی تفصیلات، کریڈٹ کارڈ نمبرز اور سی وی وی کوڈ درج کرنے کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ تاہم سامنا کی ڈیلوری کبھی نہیں ہوتی ہے۔
اہلکار نے کمیونٹی کے ممبران پر زور دیا کہ وہ چوکس رہیں اور پیغام کے باڈی میں زبان کی غلطیوں یا غیر ذاتی نوعیت کے القابات جیسے ‘ڈیئر سر/ڈیئر میڈم’ پر نظر رکھیں کیونکہ یہ اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ بھیجنے والا معلومات چوری کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ کسی بھی ویب سائٹ یا ایپلیکیشن پر ادائیگی کا ڈیٹا داخل کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ ڈیلیوری کمپنی کی آفیشل سائٹ یا ایپلی کیشن ہی ہے۔
کوئی بھی شخص جو جعلی ویب سائٹس کا سامنا کرتا ہے یا اسے غیر متوقع ترسیل کی اطلاع موصول کرتا ہے اسے پولیس کو معاملے کی اطلاع دینی چاہیے۔
شارجہ پولیس کے کمانڈر انچیف میجر جنرل سیف الزیری الشمسی نے کورئیر فراڈ سے متعلق دیگر طریقوں سے خبردار کیا ہے جہاں صارفین کسی لنک پر کلک کرنے اور کارڈ کا ڈیٹا داخل کرنے کے بعد، ایک جعلی ون ٹائم پاس ورڈ تیار ہوتا ہے۔ اگر متاثرین یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ یہ ان کے بینک سے نہیں ہے تو دھوکہ باز خریداری کے لین دین کو مکمل کرنے کے لیے معلومات کا استعمال کر سکتا ہے۔
شارجہ پولیس میں سی آئی ڈی کے ڈائریکٹر کرنل عمر ابو الزود نے رہائشیوں کو دھوکہ دہی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے سات نکات کی نشاندہی کی گئی۔
1. ای میلز یا ٹیکسٹ پیغامات میں موجود لنکس پر اس بات کو یقینی بنائے بغیر کہ وہ جائز ہیں، کلک نہ کریں۔
2. اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان کا کوئی فرد انلائن خریداری کا آرڈر وصول کرنے کی توقع کر رہا ہے۔
3. پیغامات کو احتیاط سے پڑھیں اور جس ذرایع سے وہ موصول ہو ، اس کی تصدیق کریں۔
4. ای میل ایڈریس کی قانونی حیثیت کو یقینی بنائیں۔
5. واٹس ایپ کے ذریعے بینک ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کریں۔
6. بینک کی طرف سے بھیجے گئے ون ٹائم پاس ورڈ پاسورڈ او تی پی کو احتیاط سے پڑھیں۔
7. ان آن لائن پروموشنز کو نظر انداز کریں ۔
Source: Khaleej Times