
خلیج اردو
واشنگٹن:ٹرمپ انتظامیہ ایک نئے سفری پابندی کے منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت 43 ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے سے روکا جا سکتا ہے۔ حکام کے مطابق یہ پابندیاں صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران عائد کی گئی پابندیوں سے زیادہ وسیع ہوں گی۔
سفارتی اور سیکیورٹی حکام کی جانب سے تیار کردہ ایک مسودے کے مطابق 11 ممالک پر مشتمل ایک "ریڈ لسٹ” تجویز کی گئی ہے جن کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔ ان ممالک میں افغانستان، بھوٹان، کیوبا، ایران، لیبیا، شمالی کوریا، صومالیہ، سوڈان، شام، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ فہرست امریکی محکمہ خارجہ نے چند ہفتے قبل تیار کی تھی اور اس میں ممکنہ طور پر مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ محکمہ خارجہ کے علاقائی دفاتر اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیاں اس مسودے کا جائزہ لے رہی ہیں تاکہ کسی ملک کو شامل یا خارج کرنے کی وجوہات کی تصدیق کی جا سکے۔
اس مجوزہ منصوبے میں ایک "اورنج لسٹ” بھی شامل ہے جس میں 10 ممالک کو جزوی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔ ان ممالک کے امیر کاروباری افراد کو ویزا مل سکتا ہے، لیکن سیاحتی یا امیگریشن ویزے کے تحت داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ان ممالک کے شہریوں کو ویزا حاصل کرنے کے لیے لازمی انٹرویو دینا ہوگا۔ اس فہرست میں بیلاروس، اریٹیریا، ہیٹی، لاؤس، میانمار، پاکستان، روس، سیرا لیون، جنوبی سوڈان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد، صدر ٹرمپ نے محکمہ خارجہ کو حکم دیا کہ وہ 60 دنوں کے اندر ایسی ریاستوں کی شناخت کریں جہاں سے آنے والے افراد کے لیے اسکریننگ اور ویٹنگ کا نظام ناکافی ہے اور جن پر جزوی یا مکمل سفری پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
محکمہ خارجہ، محکمہ انصاف، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور نیشنل انٹیلیجنس کے دفتر نے اس رپورٹ پر مل کر کام کیا ہے۔
متعدد سرکاری اداروں کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ویزا کے عمل میں سخت معیارات برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس پابندی کا اطلاق پہلے سے جاری ویزوں پر ہوگا یا نہیں، اور آیا موجودہ گرین کارڈ ہولڈرز کو استثنیٰ دیا جائے گا۔
رواں ہفتے، ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی نژاد شامی طالب علم محمود خلیل کی گرین کارڈ منسوخ کر دی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے منظم کیے جو حکومت کے مطابق سامیت دشمنی پر مبنی تھے۔
نئی تجویز میں ایک "یلو لسٹ” بھی شامل ہے جس میں 22 ممالک کو 60 دنوں کی مہلت دی جائے گی کہ وہ اپنی سیکیورٹی خامیوں کو دور کریں، بصورت دیگر ان پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
یلو لسٹ میں انگولا، انٹیگوا اور باربودا، بینن، برکینا فاسو، کمبوڈیا، کیمرون، کیپ ورڈی، چاڈ، کانگو، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، ڈومینیکا، استوائی گنی، گیمبیا، لائبیریا، ملاوی، مالی، موریطانیہ، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، سینٹ لوشیا، ساؤ ٹومے اور پرنسپے، وینوآٹو اور زمبابوے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں نافذ کردہ سفری پابندیوں کو ابتدائی طور پر عدالتوں نے معطل کر دیا تھا، لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے نظرثانی شدہ پابندیوں کی منظوری دے دی تھی۔ جنوری 2021 میں صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کے سفری پابندیوں کو ختم کر دیا تھا اور انہیں "ہمارے قومی ضمیر پر ایک بدنما داغ” قرار دیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ نئی پابندیاں امریکی شہریوں کو دہشت گردی، نفرت انگیز نظریات اور امیگریشن قوانین کے غلط استعمال سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔